Skip to main content

Sufi Ghulam Mustafa Tabassum: The Urdu Poet (in Urdu)

۔

                                صوفی تبسؔم
الٰہی کیوں تن  مردہ  میں جاں نہیں  آتی
وہ بے نقاب ہیں تربت کے پاس بیٹھے ہیں


 زندگی:
          صوفی غلام مصطفی تبسؔم اردو، فارسی اور پنجابی زبان کے نامور شاعر، ادیب، نقاد اور عالم تھے۔ نصف صدی تک تعلیم و تدریس اور ادب و فن کے لیے کارہائے نمایاں انجام دینے والے صوفی تبسؔم کی پیدائش 4 اگست 1899ء کو امرتسر میں ہوئی تھی۔ جہاں ان کے بزرگ کشمیر سے آکر آباد ہوئے تھے۔ پہلے آپ کا تخلص اصغر تھا جسے بعد میں بدلکر آپ نے تبسؔم کر لیا تھا۔  صوفی تبسم کے والد کا نام صوفی غلام رسول اور والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ آپ بچوں کے مقبول ترین شاعر تھے۔ آپ نے ایف سی کالج لاہور سے بی اے کی ڈگری حاصل کی جب کہ اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے فارسی کی ڈگری حاصل کی۔ ماہانہ لیل و نہار کے مدیر رہے اور براڈ کاسٹر بھی رہے۔ ٹی وی، ریڈیو سے پروگرام "اقبال کا ایک شعر" کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں سے منسلک رہے۔ صوفی تبسم پاکستان کرکٹ بورڈ کے پہلے چیئرمین بھی رہے اور انھوں نے شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے ’’مڈسمر نائٹ ڈریم‘‘ کا ’’ساون رین کا سپنا‘‘ کے نام سے ترجمہ بھی کیا تھا۔
          فیض احمد فیض، پطرس بخاری، سالک، احسان دانش اور دامن کی صوفی تبسؔم صاحب کے ساتھ بہت دوستی تھی۔ صوفی تبسم اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، شاعر، استاد، شارح، مترجم، نقاد اور ادیب ان کی شخصیت کی مختلف جہتیں تھیں۔ ان کی اردو اور فارسی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔ انہوں نے بچوں کی شاعری کے حوالے سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ ان کا تخلیق کردہ کردار ٹوٹ بٹوٹ انہیں بچوں کے ادب میں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
انہیں حکومت ایران نے نشان سپاس اور حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ 7 فروری 1978ء کو صوفی غلام مصطفی تبسم لاہور میں وفات پاگئے۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔


کام :
          صوفی تبسم نے ادب کے ہر میدان میں اپنے جلوے دکھائے۔ نظم ہو یا نثر، غزل ہو یا گیت، ملی نغمے  ہوں یا بچوں کی نظمیں۔ اُن کی قلم ہر سمت چلی ہے۔ فیروز اینڈ سنز پبلیکیشنز سے انکی بہت سی کتابیں شائع ہوئیں ہیں۔ آپ نے بچوں کے لیے بے شمار کتابیں لکھیں ہیں۔ جن میں جھولنے، ٹوٹ بٹوٹ، کہاوتیں اور پہلیاں، سنو گپ شب وغیرہ شامل ہیں۔ جھولنے تو ننھے منے بچوں کے لیے ایسی کتاب ہے جو ہر بچہ اپنے بچپن میں پڑھتا رہا ہے۔‌ صوفی غلام مصطفی تبسم نے‍ غالب کے فارسی کلام کا ترجمہ بھی کیا ہے جوکہ ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ غالب کے فارسی کلام کی شرح تحریر کی جو دو جلدوں میں چھپ چکی ہے۔ اس کے علاوہ صوفی تبسم نے امیر خسرو کے فارسی کلام کا بھی ترجمہ کیا ہے۔ یہ امیر خسرو کی 100 غزلوں کا ترجمہ تھا جو ’’دو گونہ‘‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔ اس کی ایک غزل ’’یہ رنگینی نوبہار اللہ اللہ‘‘ گلوکارہ ناہید اختر کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا جس نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کردیٔے۔ اس کلام کی تاثیر پاکستان سے ہندوستان  تک بھی پہنچی اور بھارتی موسیقاروں نے فلم ’’جینا صرف میرے لیے‘‘ میں اسی کلام کو ’’مجھے مل گیا میرا پیار اللہ اللہ‘‘ کے الفاظ میں ریکارڈ کیا ہے۔ حسن، جوانی، رعنائی اور دلکشی کے گرویدہ صوفی تبسم کی غزلوں کو فریدہ خانم ،نسیم بیگم اور ناہید اختر نے اپنی آواز دی ہے۔
         صوفی تبسم کی لکھی ہوئی 31 کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں۔ صوفی تبسم نے غالب کی اردو غزلوں کا پنجابی میں ترجمہ کیا جن میں سے ایک غزل گائیک غلام علی نے ’’میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں‘‘ گاکر خوب شہرت حاصل کی۔
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے بچوں کے لیے بھی بہت لکھا، بچوں سے بے حد محبت کرتے تھے، انھوں نے ایک بار یہ واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ ’’میرے بچے اپنی ماں اور دادی جان سے کہانیاں سنتے تھے، مگر آخر ایک دن ان کی والدہ نے انھیں میری طرف بھیجا کہ جاؤ آج والد صاحب سے کہانی سنو۔ میں نے دو چار دن تو کہانی سنائی مگر پھر میں نے بچوں سے کہا کہ میں آپ کو نظم سناسکتا ہوں اور یوں انھوں نے اپنی بیٹی ثریا کے لیے ایک نظم کہی
          ’’ثریا کی گڑیا نہانے لگی
           نہانے لگی ڈوب جانے لگی
           بڑی مشکلوں سے بچایا اسے
           کنارے پہ میں کھینچ لایا اسے
          پھر ایک بچہ جو صوفی تبسم کے دوست عبدالخالق کا بیٹا تھا اور جو عموماً عجیب و غریب حرکتیں کرتا، اس بچے سے ایک کردار نے جنم لیا اور وہ مشہور و معروف کردار ’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ ہے جو آج بھی بچوں کے پسندیدہ کردار ہے اور گنگنایا جاتا ہے:
          ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ
          باپ تھا اس کا میر سلوٹ
          پیتا تھا وہ سوڈا واٹر
          کھاتا تھا بادام اخروٹ
          صوفی غلام مصطفیٰ تبسم ایسے شاعر تھے جو اپنے کلام پر قادر تھے، آپ محض اردو کے شاعر ہی نہیں بلکہ پنجابی اور فارسی کے بھی بلند پایہ شاعر تھے۔ صوفی تبسم کی شاعری میں محبت کے جذبات کی سچی اور صحیح ترجمانی ملتی ہے۔ صوفی تبسم کو عشق ومحبت کے جذبات و احساسات کا اتنا واضح شعور تھا کہ وہ اپنے کلام میں جگہ جگہ ان جذبات و احساسات کی صحیح اور سچی تصویر کھینچ کر رکھ دیتے تھے۔ اس کی ایک واضح مثال ان اشعار میں بھی ملتی ہے:
تبسم نے علامہ اقبال کی زندگی میں ان کی شاعری کے لیے بہت کام کیا۔ انھوں نے علامہ اقبال کی شاعری کے عنوان سے ایک طویل مقالہ تحریر کیا، جسے علامہ اقبال نے بہت سراہا تھا۔


اہم کام:
      ☆مجموعہ ٹوٹ بٹوٹ
      ☆اب سب ہیں ٹوٹ بٹوٹ میاں
      ☆جھولنے
      ☆دو گونہ
      ☆ساون رین کا سپنا


اہم غزلیں:
      ☆وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ
‌‌      ☆وہ حسن کو جلوہ گر کریں گے
      ☆بجھی بجھی سی ستاروں کی روشنی ہے ابھی
      ☆جان دے کر وفا میں نام کیا
      ☆ہر ذرہ ابھر کے کہہ رہا ہے
      ☆جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے
      ☆کس نے غم کے جال بکھیرے
      ☆جانے کس کی تھی خطا یاد نہیں
      ☆جب اشک تری یاد میں آنکھوں سے ڈھلے ہیں
      ☆غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہوگا
      ☆سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
      ☆خاموشی کلام ہو گئی ہے
      ☆زندگی کیا ہے اک سفر کے سوا
      ☆تو نے کچھ بھی نہ کہا ہو جیسے
      ☆تجھ کو آتے ہی نہیں چھپنے کے انداز ابھی
      ☆ہزار گردش شام و سحر سے گزرے ہیں
      ☆نگاہیں در پہ لگی ہیں اداس بیٹھے ہیں۔
                       ●●●





Comments

Popular posts from this blog

Khwaja Meer Dard: The Sufi Urdu Poet (in Urdu)

۔        تر دامنی  پہ شیخ  ہماری  نہ  جا  ابھی       دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو  کریں                                    خواجہ میر  درؔد        خواجہ میر درؔد     زندگی:           خواجہ میر درؔد کا نام سید خواجہ میر اور درؔد تخلص تھا باپ کا نام خواجہ محمد  ناصر تھا جو فارسی کے اچھے شاعر تھے اور عندلیؔب تخلص کرتے تھے۔ آپ کا نسب خواجہ بہاو الدین نقشبندی سے والد کی طرف سے اور حضرت غوثِ اعظم سید عبدالقادر جیلانی سے والدہ کی طرف سے ملتا ہے۔ آپ کا خاندان بخارا سے ہندوستان آیا تھا۔  خواجہ میر درد دہلی میں 1720ء میں پیدا ہوئے اور ظاہری و باطنی کمالات اور جملہ علوم اپنے والد محترم سے وراثت میں حاصل کیا۔ درویشانہ تعلیم نے روحانیت کو جلا دی اور تصوف کے رنگ میں ڈوب گئے۔ آغاز جوانی میں سپاہی پیشہ تھے۔ پھر 29 سال کی عمر میں دنیاداری سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور 39 سال کی عمر میں والد صاحب کے انتقال کے بعد سجادہ نشین ہوئے۔ درد نے شاعری اور تصوف ورثہ میں پائے۔ ذاتی تقدس، خودداری، ریاضت و عبادت کی وجہ سے امیر غریب بادشاہ فقیر سب ان کی عزت کرتے تھے۔           وہ ایک باعمل صوفی تھے ا

Khwaja Meer Dard: The Sufi Urdu Poet (in Hindi)

 - तर दामनी पे शेख हमारी न जा अभी दामन  निचोड़ दें तो फरिश्ते वज़ू करें                        - ख़्वाजा मीर 'दर्द'            ख़्वाजा मीर 'दर्द'  जीवन:           ख़्वाजा मीर 'दर्द' मशहूर उर्दू शायर थे. आप का पूरा नाम सय्यद ख़्वाजा मीर और 'दर्द' आपका तख़ल्लुस़ (क़लमी नाम) था. आप के वालिद का नाम ख़्वाजा मुह़म्मद नास़िर था, जो फ़ारसी के एक जाने माने कवि थे और जिनका तख़ल्लुस़ 'अंदलीब' था. ख़्वाजा बहाउद्दीन नक्शबंदी, वालिद साहब की तरफ से और हज़रत ग़ौसे आज़म सय्यद अब्दुल क़ादिर जिलानी, मां की त़रफ़ से आपके पूर्वजों में से थे. आपका ख़ानदान बुख़ारा से हिजरत करके हिंदुस्तान आया था. ख़्वाजा मीर 'दर्द' का जन्म 1720 ई० में दिल्ली में हुआ था और आपका शायराना और सूफ़ियाना फ़न आपको अपने पिता से विरासत में मिला था. सूफ़ी तालीम ने रूह़ानियत को जिला दी और आप तस़व्वुफ़ (आध्यामिकता) के रंग में डूब गए. शुरू जवानी में आप ने फ़ौजी का पेशा अपनाया लेकिन फिर आप का मन दुनियादारी से उचट गया और 29 साल की उम्र में दुनिया के झमेलों से किनारा कशी अख

Bashir Badr: The Urdu Shayar (in Hindi)

- बड़े लोगों से मिलने में हमेशा फासला रखना, जहाँ दरया समंदर से मिला दरया नहीं रहता.                                       —बशीर बद्र बशीर ब द्र  ज़िन्दगी:       उर्दू के महान शायर डॉक्टर बशीर  बद्र का जन्म 15 फरवरी 1935 ई०  को  फैजाबाद में हुआ था, जो इस वक़्त भारत में उत्तर प्रदेश के ज़िला अयोध्या का एक शहर है. आप की तालीम अलीगढ़ मुस्लिम यूनिवर्सिटी से हुई थी. आप की बीवी राहत बद्र हैं और आपके तीन बेटे नुसरत बद्र, मासूम बद्र, तैयब बद्र और एक बेटी सबा बद्र हैं. अपनी तालीम के दौरान आप अलीगढ़ यूनिवर्सिटी के इलाक़े में रहते थे. बाद में आप  मेरठ में भी कुछ वक़्त रहे हैं जब दंगों में आपका घर जल गया था. इसके बाद कुछ वक़्त दिल्ली में रहे और फिर भोपाल में आप मुस्तकिल तौर पर बस गए.  मौजूदा वक़्त में आप दिमाग़ की बीमारी डिमेंशिया से गुज़र रहे हैं और अपने शायरी का जीवन की आप को याद नहीं है. काम:       भारत में पॉप कल्चर के सबसे लोकप्रिय कवि यदि कोई हैं, तो डॉ0 बशीर बद्र है. विविध भारती रेडियो के मशहूर प्रोग्राम ‘उजाले अपनी यादों के’ का टाइटल आप ही के एक मशहूर शेर से लि