۔
اس سادگی پے کون نہ مر جاۓ اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
مرزا غالؔب
زندگی:
شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن آگرہ کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ کر دہلی میں مستقل طور پر بس گئے۔ یہیں پر ایک ایرانی بندے عبد السمد سے آپ نے فارسی سیکھی۔ شادی کے بعد آپ کے اخراجات بہت بڑھ گئے اور آپ نے دربار میں نوکری کر لی۔ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دربار میں آپ کی بہت عزت تھی جو خود بھی ایک عظیم شاعر تھے۔ 1857ء کے غدر کے بعد آپ کی پینشن بند ہو گئی تھی، تب آپ نے رامپور کے نواب یوسف علی خان کو مدد کے لئے لکھا، نواب نے آپ کے لئے 100 روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا جو تا زندگی آپ کو ملتا رہا۔ آپ کی زندگی کا زیادہ تر وقت آگرہ اور دہلی میں ہی گزرا۔ پنشن کے سلسلے میں، آپ کو کیٔ بار کلکتہ بھی جانا پڑا۔ بہت زیادہ شراب نوشی کی وجہ سے آخری وقت میں آپ بیمار رہنے لگے تھے۔ آپ کا انتقال 15 فروری، 1869ء کو 71 سال کی عمر میں دہلی کے چاندنی چوک علاقہ میں ہوا. آپ کی مزار وہیں پر قاسم جان نام کی گلی میں واقع ہے۔
کام:
مرزا غالؔب اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کے بھی عظیم شاعروں میں شمار کۓ جاتے ہیں۔ آپ نے غزل، روبا عی، قطعہ اور قصیدہ سب کچھ لکھا ہے۔ نجی طور پر آپ کو فارسی میں لکھنا زیادہ پسند تھا لیکن آپ کی پہچان اردو شاعری سے ہی بنی ہے۔ آپ کے کلام کی روانی دیکھتے ہی بنتی ہے۔ صرف آپ اور میر تقی میؔر ہی ہیں جن کی وجہ سے فارسی شاعری کو ہندوستان میں شناخت ملی تھی۔ آپ کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ زندگی کی حقیقت اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لئے اسے اپنی شاعری میں بیان کردیتے تھے۔ ویسے تو غالؔب نے سیدھے نثر میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا ہے لیکن ان کے اپنے دوستوں کو لکھے خطوط اردو ادب میں اپنا الگ مقام رکھتے ہیں۔ ان خطوط کو پڑھکر ایسا لگتا ہے کہ غالؔب اپنے سامنے بیٹھے شخص سے بات کر رہے ہوں۔ غالب کا نام بھارت اور پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اردو اور فارسی کے شیدائیوں میں مشہور ہے۔ ان کی حاجر جوابی کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ایک بار رمضان میں غالؔب اپنے کمرے میں بیٹھے شراب پی رہے تھے، شراب پیتے دیکھ کسی نے کہا غالؔب میں نے تو سنا ہے کہ رمضان میں شیطان قید کر دیئے جاتے ہیں پھر بھی تم یہ شیطانی کام کر رہے ہو۔ غالؔب نے کہا، دوست، آپ نہیں جانتے کہ وہ یہی کمرا ہے جہاں شیطان قید کیۓ جاتے ہیں۔
غالؔب کا تعلق اس زمانے سے تھا جب آپ نے مغلیہ سلطنت کو برباد ہوتے اور انگریزی حکومت کو کھڑے ہوتے دیکھا اسکا اثر آپکی شاعری پر پڑے بنا نہ رہ سکا۔ مغل بادشاہ نے انہیں دبیرالملک اور نظم الدولا کے خطاب سے نوازا تھا۔ غالؔب پہلے ایسے شاعر تھے جس نے اردو شاعری میں غورو فکر کی کیفیت پیدا کی ورنہ اس سے پہلے اردو شاعری میں زیادہ تر شوخی، دلکشی اور دللگی ہی پائی جاتی تھی۔ غالؔب کی شاعری میں رومانیت، تصوف، شوخی اورانکساری جیسے متضاد جذبے ایک ساتھ پاۓ جاتے ہیں۔ آپ نے زندگی کو کھلے ذہن کے ساتھ الگ الگ نظریئے سے دیکھا اور ایک سچے شاعر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ان احساسات کو شاعری کے سانچے میں ڈھال دیا۔ آپ کی شاعری کا رنگ زندگی کی کشمکش بھرپور ہے اسی لئے آپ کی شاعری میں جو رنج و غم ملتا ہے اور جس اُداسی، تنہائی، محرومی، ویرانی اور ناامیدی کی جھلک ملتی ہے، وہ صرف آپ کے ذاتی حالات کی ترجمانی نہیں بلکہ یہ سب اُس زمانے کے سما جی حالات اور ماحول کا آئینہ ہے۔اہم غزلیں:
☆ دیوانگی میں دوش پہ زنّار۔۔۔
☆ دلِ ناداں تجھے ہوا۔۔۔
☆ ہر ایک بات پہ کہتے ہو۔۔۔
☆ ہوئی تاخیر تو کچھ۔۔۔
☆ ذکر اُس پری وش اور۔۔۔
☆ عشرتِ قطرہ ہے دریا۔۔۔
☆ منظور تھی یہ شکل۔۔۔
☆ نہیں کہ مجھ کو قیامت۔۔۔
☆ ملتی ہے خُوئے یار سے۔۔۔
☆ ہزارخواہشیں ایسی۔۔۔
☆ کوئی اُمید بر نہیں۔۔۔
☆ کہوں جو حال تو کہتے۔۔۔
☆ تسکیں کو ہم نہ روئیں۔۔۔
☆ عشق مجھ کو نہیں۔۔۔
☆ صد جلوہ رو بہ رو ہے۔۔۔
☆ جہاں تیرا نقشِ قدم۔۔۔
☆ وہ آ کے خواب میں۔۔۔
☆ حیراں ہوں دل کو۔۔۔
☆ آ کہ مری جان کو قرار۔۔۔
☆ لازم تھا کہ دیکھو مرا۔۔۔
☆ رہیے اب ایسی جگہ چل۔۔۔
☆ غمِ دنیا سے گر پائی۔۔۔
☆ نہ ہوئی گر مرے مرنے سے۔۔۔
☆ پھر اس انداز سے بہار۔۔۔
☆ دائم پڑا ہوا ترے در پر۔۔۔
☆ دوست غم خواری میں۔۔۔
☆ مدت ہوئی ہے یار کو۔۔۔
☆ چاہیے اچھوں کو جتنا۔۔۔
☆ اس بزم میں مجھے۔۔۔
☆ درد منت کش دوا نہ۔۔۔
☆ غیر لیں محفل میں۔۔۔
☆ کب وہ سنتا ہے کہانی۔۔۔
☆ عجب نشاط سے جلاد۔۔۔
☆ رونے سے اور عشق میں۔۔۔
☆ میں انہیں چھیڑوں اور۔۔۔
☆ ظلمت کدے میں میرے۔۔۔
☆ بہت سہی غمِ گیتی۔۔۔
☆ کبھی نیکی بھی اس۔۔۔
☆ یہ ہم جو ہجر میں۔۔۔
☆ کوئی دن گر زندگانی۔۔۔
☆ پھر مجھے دیدۂ تر۔۔۔
☆ حُسنِ مہ گرچہ بہ ہنگام۔۔۔
☆ پھر کچھ اک دل کو بے۔۔۔
☆ بازیچۂ اطفال ہے دنیا۔۔۔
☆ آئینہ کیوں نہ دوں کہ۔۔۔
☆ سب کہاں کچھ لالہ۔۔۔
☆ شکوے کے نام سے بے۔۔۔
☆ بے اعتدالیوں سے سبک۔۔۔
☆ عرض نیازِ عشق کے۔۔۔
☆ پھر اس انداز سے بہار۔۔۔
☆ نکتہ چیں ہے غم دل۔۔۔
☆ کی وفا ہم سے تو غیر۔۔۔
☆ جس زخم کی ہو۔۔۔
☆ کیوں جل گیا نہ۔۔۔
☆ سادگی پر اس کی۔۔۔
☆ جس بزم میں تو ناز۔۔۔
☆ دل سے تری نگاہ جگر۔۔۔
☆ لاغر اتنا ہوں کہ گر تو۔۔۔
☆ بسکہ دشوار ہے ہر کام کا۔۔۔
☆ کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل۔۔۔
☆ میں ہوں مشتاقِ جفا۔۔۔
●●●
☆ کہوں جو حال تو کہتے۔۔۔
☆ تسکیں کو ہم نہ روئیں۔۔۔
☆ عشق مجھ کو نہیں۔۔۔
☆ صد جلوہ رو بہ رو ہے۔۔۔
☆ جہاں تیرا نقشِ قدم۔۔۔
☆ وہ آ کے خواب میں۔۔۔
☆ حیراں ہوں دل کو۔۔۔
☆ آ کہ مری جان کو قرار۔۔۔
☆ لازم تھا کہ دیکھو مرا۔۔۔
☆ رہیے اب ایسی جگہ چل۔۔۔
☆ غمِ دنیا سے گر پائی۔۔۔
☆ نہ ہوئی گر مرے مرنے سے۔۔۔
☆ پھر اس انداز سے بہار۔۔۔
☆ دائم پڑا ہوا ترے در پر۔۔۔
☆ دوست غم خواری میں۔۔۔
☆ مدت ہوئی ہے یار کو۔۔۔
☆ چاہیے اچھوں کو جتنا۔۔۔
☆ اس بزم میں مجھے۔۔۔
☆ درد منت کش دوا نہ۔۔۔
☆ غیر لیں محفل میں۔۔۔
☆ کب وہ سنتا ہے کہانی۔۔۔
☆ عجب نشاط سے جلاد۔۔۔
☆ رونے سے اور عشق میں۔۔۔
☆ میں انہیں چھیڑوں اور۔۔۔
☆ ظلمت کدے میں میرے۔۔۔
☆ بہت سہی غمِ گیتی۔۔۔
☆ کبھی نیکی بھی اس۔۔۔
☆ یہ ہم جو ہجر میں۔۔۔
☆ کوئی دن گر زندگانی۔۔۔
☆ پھر مجھے دیدۂ تر۔۔۔
☆ حُسنِ مہ گرچہ بہ ہنگام۔۔۔
☆ پھر کچھ اک دل کو بے۔۔۔
☆ بازیچۂ اطفال ہے دنیا۔۔۔
☆ آئینہ کیوں نہ دوں کہ۔۔۔
☆ سب کہاں کچھ لالہ۔۔۔
☆ شکوے کے نام سے بے۔۔۔
☆ بے اعتدالیوں سے سبک۔۔۔
☆ عرض نیازِ عشق کے۔۔۔
☆ پھر اس انداز سے بہار۔۔۔
☆ نکتہ چیں ہے غم دل۔۔۔
☆ کی وفا ہم سے تو غیر۔۔۔
☆ جس زخم کی ہو۔۔۔
☆ کیوں جل گیا نہ۔۔۔
☆ سادگی پر اس کی۔۔۔
☆ جس بزم میں تو ناز۔۔۔
☆ دل سے تری نگاہ جگر۔۔۔
☆ لاغر اتنا ہوں کہ گر تو۔۔۔
☆ بسکہ دشوار ہے ہر کام کا۔۔۔
☆ کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل۔۔۔
☆ میں ہوں مشتاقِ جفا۔۔۔
●●●
Comments
Post a Comment