۔زندگی:
خواجہ حیدر علی آتشؔ لکھنؤ اسکول کے شاعروں میں بہت اہم مقام رکھتے ہیں۔ آپ کا تعلق دلّی کے صوفی خاندان سے تھا، کہا جاتا ہے آپ کے آبا و اجداد بغداد (عراق) سے آکر دلّی میں بس گئے تھے۔ آپ کے والد علی بخش ایک صوفی تھے جو نواب شجاءالدولا کے زمانے میں اودھ کی داراحکومت فیضآباد آکر بس گئے تھے۔ یہیں پر 1778ء میں آپ کی پیدائش مغلپورہ محلہ میں ہوئی، آپ کا بچپن فیضآباد کی گلیںو میں ہی بیتا۔
آپ کی ابتدائی تعلیم مدرسے میں ہوئی لیکن باپ کا سایہ آپ کے سر سے بچپن میں ہی اٹھ گیا تھا، جس کی وجہ سے آپ کی تعلیم و تربیت صحیح ڈھنگ سے نہ ہو پائی تھی اور اسی وجہ سے آپ کے مزاج میں تیزی آگئی تھی۔ ابتداء میں آپ نے روزگار کے لئے بہت سے کام کئے لیکن کسی کام میں آپ کا من نہ لگا آپ کے ضمیر سے کوئی آواز آتی رہتی تھی جو آپ کو شعر و شاعری کے لئے اکساتی رہتی تھی۔ آپ تلوار بازی میں بہت ماہر تھے اور اپنے اس ہنر کی وجہ سے آپ فیض آباد کے نواب محمد تقی خان کے تلواربازو میں شامل ہو گئے نواب تقی نے آپ کے اندر پوشیدہ شاعرانہ ہنر کو پہچانا، اور آپ کی حوصلا افزائی بھی کی، ان سے حوصلا پاکر آپ شعر و شاعری لکھنے لگے، اس وقت شروع میں آپ کا تخلص (قلمی نام) مولائی تھا۔
1806 میں 29 سال کی عمر میں نواب تقی کی اما پر آپ فیض آباد سے لکھنؤ آکر بس گئے جو اس وقت اردو ادب کا بہت اہم مرکز تھا، لکھنؤ بہت سے مشہور شاعروں کی جگہ تھی جیسے میر تقی میر، ناسخ، انشاء، قتیل وغیرہ۔ یہاں آکر آپ مصحفی کے شاگرد بن گئے جو اس وقت لکھنؤ کے بہت ہی معزز اور جانے مانے شاعر تھے۔ مصحفی ایک بہت اونچے درجے کے شاعر ہونے کے بعد بھی گروه بندی کی وجہ سے وہاں وہ مقام نہیں حاصل کر پائے تھے جس کے وہ حقدار تھے۔ لیکن مصحفی نے اپنے شاگرد کو ایسی تربیت دی کہ استاد کے اندر دبی آتش ان شاگرد کے ذریعہ پھوٹ کر باہر نکلی اور ہر طرف پھیل گئی، یہاں سے حیدر علی نے اپنا تخلص مولائی سے بدل کر آتشؔ کر لیا اور اپنے استاد کا نام زمانے بھر میں روشن کیا۔
فیض آباد میں آپ فارسی زبان میں بھی لکھتے تھے لیکن لکھنؤ میں آنے کے بعد آپ اردو میں ہی لکھنے لگے ساتھ ہی اپنی ادھوری تعلیم کو مکمل کرنا بھی شروع کیا۔ لکھنؤ میں بہت جلدی آپ کا شمار چوٹی کے شاعروں میں ہونے لگا، لوگ جلد ہی آپ کو ناسخ کے برابر کا شاعرِ تصوّر کرنے لگے۔ لکھنؤ آنے کے کچھ وقت بعد ہی نواب تقی کا انتقال ہو گیا تھا جس کے بعد آپ نے پھر کسی نواب کی ملازمت نہیں کی اور نہ ہی درباری شاعر بنے بلکہ آزاد رہ کر ہی لکھنا پسند کیا۔ درباری شانو شوکت نے آپ کو کبھی بھی متاثر نہیں کیا، کم آمدنی کے بعد بھی آپ نے اپنی خودمختاری سے سمجھوتہ نہیں کیا جس سے ایک بار رشتہ جوڑا تو پھر موت کے بعد بھی اس کا بدل نہ کیا۔
لکھنؤ میں ایک پرانا سا مکان خرید لیا تھا اور اسی کے باہر بیٹھے رہتے کوئی غریب دروازے پر آ جاتا تو اسے پاس بٹھاتے اس سے بات چیت کرتے لیکن کوئی امیر آتا تو اسے منہ نہ لگاتے۔ ایسے ہی فقيرانا انداز میں زندگی گزار دی لیکن کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا کچھ روپے مہینے لکھنؤ کے نواب بھیج دیتے اسی پر گزارا کرتے۔ کبھی کبھی فاقہ کرنے کی بھی نوبت آ جاتی بعد میں آپ کے شاگردوں کو پتہ چلتا تو بھاگ کر کھانا لے کر آتے اور شکایت کرتے کہ انہیں بتایا کیوں نہیں۔ آپ نے شادی بھی کی اور ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوۓ۔ ہمیشہ ایک تلوار آپ کی کمر پر بندھی رہی اور ایک گھوڑا ہمیشہ گھر کے باہر کھڑا رہتا۔
ناسخ آپ کے ہم مقابل شاعر تھے، لیکن وہ اُن سے بہت لگاؤ رکھتے تھے یہاں تک کہ ناسخ کی موت کے بعد آپنے شاعری لکھنا چھوڑ دیا تھا۔ اردو ادب میں غالب اور میر کے بعد آپ کو سب سے اہم شاعر تصور کیا جاتا ہے۔ عظیم شاہکار گلزارِنسیم کے مصنف دیا شنکر نسیم آپ ہی کے شاگرد تھے۔ آخری وقت میں آپ کی آنکھ کی روشنی جاتی رہی تھی۔ آپ کی وفات 1847 کو لکھنؤ میں ہوئی اور آپ کی تدفین چڑھائی مادھو لال پر واقع آپ کے گھر پر ہوئی جسکا ذمّہ آپکے دوست میر علی خلیل نے لیا اور انہوں نے ہے آپ کے بعد آپ کے اہل و عیال کی سرپرستی بھی کی۔
خواجہ حیدر علی آتشؔ لکھنؤ اسکول کے شاعروں میں بہت اہم مقام رکھتے ہیں۔ آپ کا تعلق دلّی کے صوفی خاندان سے تھا، کہا جاتا ہے آپ کے آبا و اجداد بغداد (عراق) سے آکر دلّی میں بس گئے تھے۔ آپ کے والد علی بخش ایک صوفی تھے جو نواب شجاءالدولا کے زمانے میں اودھ کی داراحکومت فیضآباد آکر بس گئے تھے۔ یہیں پر 1778ء میں آپ کی پیدائش مغلپورہ محلہ میں ہوئی، آپ کا بچپن فیضآباد کی گلیںو میں ہی بیتا۔
آپ کی ابتدائی تعلیم مدرسے میں ہوئی لیکن باپ کا سایہ آپ کے سر سے بچپن میں ہی اٹھ گیا تھا، جس کی وجہ سے آپ کی تعلیم و تربیت صحیح ڈھنگ سے نہ ہو پائی تھی اور اسی وجہ سے آپ کے مزاج میں تیزی آگئی تھی۔ ابتداء میں آپ نے روزگار کے لئے بہت سے کام کئے لیکن کسی کام میں آپ کا من نہ لگا آپ کے ضمیر سے کوئی آواز آتی رہتی تھی جو آپ کو شعر و شاعری کے لئے اکساتی رہتی تھی۔ آپ تلوار بازی میں بہت ماہر تھے اور اپنے اس ہنر کی وجہ سے آپ فیض آباد کے نواب محمد تقی خان کے تلواربازو میں شامل ہو گئے نواب تقی نے آپ کے اندر پوشیدہ شاعرانہ ہنر کو پہچانا، اور آپ کی حوصلا افزائی بھی کی، ان سے حوصلا پاکر آپ شعر و شاعری لکھنے لگے، اس وقت شروع میں آپ کا تخلص (قلمی نام) مولائی تھا۔
1806 میں 29 سال کی عمر میں نواب تقی کی اما پر آپ فیض آباد سے لکھنؤ آکر بس گئے جو اس وقت اردو ادب کا بہت اہم مرکز تھا، لکھنؤ بہت سے مشہور شاعروں کی جگہ تھی جیسے میر تقی میر، ناسخ، انشاء، قتیل وغیرہ۔ یہاں آکر آپ مصحفی کے شاگرد بن گئے جو اس وقت لکھنؤ کے بہت ہی معزز اور جانے مانے شاعر تھے۔ مصحفی ایک بہت اونچے درجے کے شاعر ہونے کے بعد بھی گروه بندی کی وجہ سے وہاں وہ مقام نہیں حاصل کر پائے تھے جس کے وہ حقدار تھے۔ لیکن مصحفی نے اپنے شاگرد کو ایسی تربیت دی کہ استاد کے اندر دبی آتش ان شاگرد کے ذریعہ پھوٹ کر باہر نکلی اور ہر طرف پھیل گئی، یہاں سے حیدر علی نے اپنا تخلص مولائی سے بدل کر آتشؔ کر لیا اور اپنے استاد کا نام زمانے بھر میں روشن کیا۔
فیض آباد میں آپ فارسی زبان میں بھی لکھتے تھے لیکن لکھنؤ میں آنے کے بعد آپ اردو میں ہی لکھنے لگے ساتھ ہی اپنی ادھوری تعلیم کو مکمل کرنا بھی شروع کیا۔ لکھنؤ میں بہت جلدی آپ کا شمار چوٹی کے شاعروں میں ہونے لگا، لوگ جلد ہی آپ کو ناسخ کے برابر کا شاعرِ تصوّر کرنے لگے۔ لکھنؤ آنے کے کچھ وقت بعد ہی نواب تقی کا انتقال ہو گیا تھا جس کے بعد آپ نے پھر کسی نواب کی ملازمت نہیں کی اور نہ ہی درباری شاعر بنے بلکہ آزاد رہ کر ہی لکھنا پسند کیا۔ درباری شانو شوکت نے آپ کو کبھی بھی متاثر نہیں کیا، کم آمدنی کے بعد بھی آپ نے اپنی خودمختاری سے سمجھوتہ نہیں کیا جس سے ایک بار رشتہ جوڑا تو پھر موت کے بعد بھی اس کا بدل نہ کیا۔
لکھنؤ میں ایک پرانا سا مکان خرید لیا تھا اور اسی کے باہر بیٹھے رہتے کوئی غریب دروازے پر آ جاتا تو اسے پاس بٹھاتے اس سے بات چیت کرتے لیکن کوئی امیر آتا تو اسے منہ نہ لگاتے۔ ایسے ہی فقيرانا انداز میں زندگی گزار دی لیکن کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا کچھ روپے مہینے لکھنؤ کے نواب بھیج دیتے اسی پر گزارا کرتے۔ کبھی کبھی فاقہ کرنے کی بھی نوبت آ جاتی بعد میں آپ کے شاگردوں کو پتہ چلتا تو بھاگ کر کھانا لے کر آتے اور شکایت کرتے کہ انہیں بتایا کیوں نہیں۔ آپ نے شادی بھی کی اور ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوۓ۔ ہمیشہ ایک تلوار آپ کی کمر پر بندھی رہی اور ایک گھوڑا ہمیشہ گھر کے باہر کھڑا رہتا۔
ناسخ آپ کے ہم مقابل شاعر تھے، لیکن وہ اُن سے بہت لگاؤ رکھتے تھے یہاں تک کہ ناسخ کی موت کے بعد آپنے شاعری لکھنا چھوڑ دیا تھا۔ اردو ادب میں غالب اور میر کے بعد آپ کو سب سے اہم شاعر تصور کیا جاتا ہے۔ عظیم شاہکار گلزارِنسیم کے مصنف دیا شنکر نسیم آپ ہی کے شاگرد تھے۔ آخری وقت میں آپ کی آنکھ کی روشنی جاتی رہی تھی۔ آپ کی وفات 1847 کو لکھنؤ میں ہوئی اور آپ کی تدفین چڑھائی مادھو لال پر واقع آپ کے گھر پر ہوئی جسکا ذمّہ آپکے دوست میر علی خلیل نے لیا اور انہوں نے ہے آپ کے بعد آپ کے اہل و عیال کی سرپرستی بھی کی۔
کام:
خواجہ حیدر علی آتشؔ کا اردو ادب کے فروغ میں بہت اہم کردار رہا ہے، ویسے تو آپ نے فارسی میں بھی لکھا ہے لیکن آپ کا فارسی کا کلام زیادہ سامنے نہیں آیا ہے۔ آپکی زبان بہت جاندار تھی اور اس میں آپ نے مقبول جملوں اور چلن میں رہے مہاوروں اور کہاوتوں کا استعمال کثرت سے کیا ہے۔ ان کے کچھ مہاوریدار شعر آج تک بھی بول چال کی زبان میں استعمال ہوتے ہیں۔ آپ شعرو شاعری میں بہر اور قواعد کی پابندی پر خاص دھیان دیتے تھے۔ آپ کے کمال اس میں تھا کہ آپ نے اپنی شاعری میں جذبات کا اظہار بڑی شدت سے کیا ہے لیکن آپ کےجذبات میں بناوٹی پن نہیں پایا جاتا ہے بلکہ ان میں ایک سچائی کی جھلک ملتی ہے، ایسا بالکل نہیں لگتا ہے کہ ان میں جذباتوں کو جبردستی ڈالا گیا ہو۔ نرمی کی زبان اور لے کی پابندی نے آپ کے کلام کو بےمثال بنا دیا ہے۔
لکھنؤ میں جہاں آپ رہتے تھے وہاں آپ کے مکان کے پیچھے ایک جنگل تھا تنہائ میں آپ ٹہلتے ہوئے نکل جاتے اور گھنٹوں اکیلے غوروفکر کرتے رہتے، اس وجہ سے آپ کے کلام میں ایک گہری فکر پائی جاتی ہے۔ آپ کے کلام کی ایک اور خاصیت یہ تھی کہ اس میں موڈ ہر لمحہ لمحہ بدلتا رہتا ہے، کبھی روحانی، کبھی سنجیدہ، کبھی رومانی، کبھی رنگین اور کبھی صوفی موڈ ایک ہی جگہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ آپ انسانی محبت کے جذبات کو بہت خوبی سے سمجھتے تھے اور آشق و معشوق کے ملاپ کو اپنی شاعری میں بہت الگ انداز میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ امام بخش ناسخ اس زمانے کے جانے مانے شاعر تھے جن کی ادبی دنیا میں بہت عزت تھی آپ نے جب لکھنؤ کی ادبی دنیا میں قدم رکھا تو جلد ہی لوگ آپ کو ناسخ کی ٹککر کا شاعرِ ماننے لگے۔ ناسخ کی طرح آپ کے بھی سیکڑوں شاگرد بن گئے۔ آپ دونوں میں شاعرانہ نوک جھونک ہونے لگی۔ ایک دوسرے کے مقابلے میں ایک سے بڑھکر ایک شعر کہے گئے۔ آتش اور ناسخ کا وہ دور اردو ادب کا سنہرا دور مانا جاتا ہے جب ایک دوسرے کے مقابلے کی وجہ سے بہت عمدہ اور لا فانی کلام وجود میں آیا۔
آپ ناسخ کے ہم مقابل شاعر بن گئے تھے اور بعد میں شاید اُن سے بھی آگے نکل گئے تھے، لیکن آپ دونوں کے بیچ کی نوک جھونک اور لڑائی صرف شعر و شاعری تک ہی تھی۔ نجی زندگی میں دونوں ایک دوسرے کے اچھے دوست تھے۔
آتشؔ نے کبھی شاہی دربار سے جڑنے کی کوشش نہیں کی اور ہمیشہ آزاد ہی رہے وجہ یہ تھی کہ وہ دکھاوٹی اور شانو شوکت کی زندگی کو پسند نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ سادہ زندگی ہی جینے کو ترجیح دیتے تھے۔ ان کے فقيرانا مزاج کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو گی کہ شاہی دربار سے بلاوا آنے کے بعد بھی وہ دربار نہیں گئے اس کی وجہ سے آپ کو بہت سی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ آپ ٹوٹ گئے، ٹوٹ کر چکنا چور ہو گئے، یہی ٹوٹن آپ کی شاعری میں بھی ظاہر ہوئی اور اس کو ایک نئی پرواز ملی۔ شاہی دربار سے وابستہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی شاعری میں چاپلوسی کی ذرا بھی جھلک نہیں ملتی، ساتھ ہی اس سے ان کی شاعری کو ایک نئی روشنی ملتی ہے۔ اپنے دوست ناسخ کی موت کے بعد آپنے شاعری لکھنا چھوڑ دیا ان کا کہنا تھا اب وہ کس کے لئے لکھے اور اُن کے لکھے کا جواب کون دیگا۔ آپ اپنے پیچھے دو دیوان چھوڑ گئے، جو آپ کی شاعری کی آزادانہ پرواز کے سچے گواہ ہیں:
(1)کلیات خواجہ حیدر علی عاتش،
(2) دیوان آتش۔
اہم غزلیں:
☆ غیرتِ مہر رشکِ ماہ ہو تم۔۔۔
☆ دل لگی اپنی تیرے ذکر سے کس رات نہ تھی۔۔۔
☆ ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا۔۔۔
☆ حسرت ِ جلوہِ دیدار لیۓ پھرتی ہے۔۔۔
☆ حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا۔۔۔
☆ یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو برو کرتے... (غزل پڑھیں)
☆ دل کی کدورتیں گر انساں سے دور ہوں...
☆ عاشق ہوں میں نفرت ہے میرے رنگ کو رو سے...
☆ زندے وہیں ہیں کے جو ہیں تم پر مرے ہوۓ۔۔۔
☆ یہ جنوں ہوتے ہیں صحرا پر شہر سے اُتارے۔۔۔
☆ اے صنم جسنے تجھے چاند سی صورت دی ہے۔۔۔
☆ وہ نازنیں یہ نزاکت میں کچھ یگانہ ہوا۔۔۔
☆ ایسی وحشت نہیں دل کو کہ سنبھل جاؤنگا۔۔۔
☆ یہ کس رشکِ مسیحا کا مکاں ہے۔۔۔
☆ برق کو اس پر عبث ہیں گرنے کی تیاریاں۔۔۔
☆ بلاۓ جاں مجھکو ہر ایک خوش جمال ہوا۔۔۔
☆ چمن میں وہ شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا۔۔۔
☆ دہن پر ہیں انکے گماں کیسے کیسے۔۔۔
☆ وحشی تھے بوئے گل کی طرح اس جہاں میں ہم۔۔۔
☆ دیوانگی نے کیا کیا عالم دیکھا دیئے ہیں۔۔۔
☆ وحشتِ دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا۔۔۔
☆ بازارِ دہر میں تیری منزل کہاں نہ تھی۔۔۔
☆ حُسنِ پری ایک جلوہِ مستانہ ہے اُسکا۔۔۔
☆ انصاف کے ترازو میں تولہ عیاں ہوا۔۔۔
☆ نازو ادا ہے تُجھ سے دلِ آرام کے لئے۔۔۔
☆ نا فہمی ہے اپنی پردہ دیدار کے لیے۔۔۔
☆ حسن کس روز ہم سے صاف ہوا۔۔۔
☆ شبِ وصل تھی چاندنی کا سماں تھا۔۔۔
☆ سن تو صحیح جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا۔۔۔
☆ فریب و حُسنِ سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا۔۔۔
☆ پیسے دل اسکی چِتون پے ہزاروں۔۔۔
☆ جوہر نہیں ہیں ہمارے سیاد پر کھلے۔۔۔
☆ آئنہ خانہ کرینگے دلِ ناکام کو ہم۔۔۔
☆ آخر کار چلے تیر کی رفتار قدم۔۔۔
☆ موت مانگوں تو رہے آرزوئے خواب مجھے۔۔۔
☆ مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے۔۔۔
☆ کیا کیا نہ رنگ تیرے طلب گار لا چکے۔۔۔
☆ کوئی اچھا نہیں ہوتا ہے بری چالوں سے۔۔۔
☆ کون سے دل میں محبت نہیں جانی تیری
☆ کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے۔۔۔
☆ صورت سے اس کی بہتر صورت نہیں ہے کوئی۔۔۔
☆ خار مطلوب جو ہووے تو گلستاں مانگوں۔۔۔
☆ جوش و خروش پر ہے بہار چمن ہنوز۔۔۔
☆رخ و زلف پر جان کھویا کیا۔۔۔
●●●
Comments
Post a Comment