بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا
احمد ندیمؔ قاسمی
.احمد نؔدیم قاسمی
زندگی:
آپ کی پیدائش برطانوی بھارت (اب پاکستان) کے سرگودھا ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں انگہ میں 20 نومبر 1916 کو ہوا تھا آپ کا اصل نام احمد شاہ تھا اور آپ کے والد پیر غلام نبی ایک خدا پرست اور تقویٰ والے انسان تھے۔ 1923ء میں والد کے انتقال کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور آ کر رہنے لگے، یہاں آپ کو مذہبی، عملی اور شاعرانہ ماحول ملا جس نے بعد میں آپ کو ایک عظیم شاعر میں ڈھال دیا. اختر شیرانی جیسے شراب پرست انسان کے ساتھ رہنے کے بعد بھی آپ نے زندگی بھر شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اس سے آپ کی دماغی طاقت اور خود اعتمادی کا پتہ چلتا ہے۔ جب آپ اپنا گاؤں چھوڑکر لاہور آئے تو آپکو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے کبھی ہار نہیں مانی۔ 1931ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول شیخو پورہ سے آپ نے میٹرک پاس کیا اور صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں داخل ہوگئے جہاں سے 1935ء میں گریجویٹ کرنے کے بعد آپ سرکاری کلرک ہو گئے لیکن پھر یہ کام آپ نے صرف صحافت کرنے کے لئے چھوڑ دیا. پھر آپ پروگریسو رائٹرز موومنٹ سے جڑ کر سکریٹری کے عہدے پر کام کرنے لگے جس کی وجہ سے 1950 سے 1970 کے دوران آپ کو کئی بار گرفتار بھی کیا گیا. آپ کی وفات 10 جولائی، 2006 کو لاہور کے ایک ہسپتال میں دمہ کے مرض کی وجہ سے ہوئی تھی.
کام:
احمد نؔدیم اردو کے مشہور شاعر مصنف اور صحافی تھے، پریم چند کی طرح ، آپ نے بھی اپنی کہانیوں میں دیہات کی زندگی کو بہت قریب سے اُکیرا ہے. قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتداء 1931ء میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ سیاست لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ تقریبا نصف صدی تک، آپ نے مشہور ادبی میگزین فنون کے ایڈیٹرز رہے ہیں. 1980 میں آپ کی ادبی خدمات کے لئے، آپ کو پاکستان کا سب سے بڑا ادبی اعجاز ستارہ امتیاز دیا گیا. آپ اپنی تحریر میں انسانیت کے پہلو پر بہت زور دیتے تھے. آپ کی شاعری کا پہلا نمونہ 1962 میں لکھا گیا جو بعد میں رِم جِھم کے نام سے شائع ہوئی اور پھر اسی نام سے جانی گئی جلال و جمال شولائے گل دشتِ وفا وغیرہ آپ کی شاعری کے دیگر شاہکار ہے۔ آپ نے بہت سے افسانے بھی لکھے ہیں جن میں سناٹا، آنچل، بھوت، کپاس کا پھول، آس پاس، جھوٹا، نیلا پتھر، بازارِ حیات، گھر سے گھر تک وغیرہ بہت مشہور ہیں۔
احمد نؔدیم اردو کے مشہور شاعر مصنف اور صحافی تھے، پریم چند کی طرح ، آپ نے بھی اپنی کہانیوں میں دیہات کی زندگی کو بہت قریب سے اُکیرا ہے. قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتداء 1931ء میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ سیاست لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ تقریبا نصف صدی تک، آپ نے مشہور ادبی میگزین فنون کے ایڈیٹرز رہے ہیں. 1980 میں آپ کی ادبی خدمات کے لئے، آپ کو پاکستان کا سب سے بڑا ادبی اعجاز ستارہ امتیاز دیا گیا. آپ اپنی تحریر میں انسانیت کے پہلو پر بہت زور دیتے تھے. آپ کی شاعری کا پہلا نمونہ 1962 میں لکھا گیا جو بعد میں رِم جِھم کے نام سے شائع ہوئی اور پھر اسی نام سے جانی گئی جلال و جمال شولائے گل دشتِ وفا وغیرہ آپ کی شاعری کے دیگر شاہکار ہے۔ آپ نے بہت سے افسانے بھی لکھے ہیں جن میں سناٹا، آنچل، بھوت، کپاس کا پھول، آس پاس، جھوٹا، نیلا پتھر، بازارِ حیات، گھر سے گھر تک وغیرہ بہت مشہور ہیں۔
اہم غزلیں:
☆ جب تیرا حکم ملا ترکِ محبت...
☆ حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں...
☆ تجھے کھوکر بھی تجھے پاؤں...
☆ کون کہتا کہ موت آئی...
☆ شام کو صبحِ چمن یاد آئی...
☆ اک سہمی سہمی سی آہٹ...
☆ گل تیرا رنگ چرا لائے ہیں... (read ghazal)
☆ سانس لینا بھی سزا لگتا ہے...
☆ کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا...
☆ نہ وہ سن ہے فرستے عشق...
☆ میں کب سے گوش بر آواز...
☆ انقلاب اپنا کام کر کے رہا...
☆ ریت سے بت نہ بنا...
☆ کیا بھروسہ ہو کسی ہمدم...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
☆ جب تیرا حکم ملا ترکِ محبت...
☆ حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں...
☆ تجھے کھوکر بھی تجھے پاؤں...
☆ کون کہتا کہ موت آئی...
☆ شام کو صبحِ چمن یاد آئی...
☆ اک سہمی سہمی سی آہٹ...
☆ گل تیرا رنگ چرا لائے ہیں... (read ghazal)
☆ سانس لینا بھی سزا لگتا ہے...
☆ کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا...
☆ نہ وہ سن ہے فرستے عشق...
☆ میں کب سے گوش بر آواز...
☆ انقلاب اپنا کام کر کے رہا...
☆ ریت سے بت نہ بنا...
☆ کیا بھروسہ ہو کسی ہمدم...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment