مغل دور کے بعد امیؔر مینائی کو ہی سب سے اہم اردو شاعروں اور ادیبوں میں گنا جاتا ہے۔ آپ کی پیدائش لکھنؤ میں شاہ نصیرالدین شاہ حیدر نواب کے عہد میں 1828ء میں ہوئی۔ آپ کا پورا نام امیر احمد تھا اور شاہ مینا کے خاندان سے ہونے کی وجہ سے آپ کو مینائی کہا جانے لگا۔ آپ کے والد مولوی کرم محمد تھے۔ آپ نے مفتی سعد اللہ اور فرنگی محل سے جڑے دیگر عالموں سے تعلیم حاصل کی۔ خاندان صابریہ چستیہ کے سجّادہ نشیں سے آپ نے بیت فرمائی۔ شاعری میں مظفر علی اسیر لکھنوی آپ کے استاد رہے۔ 1852ء میں نواب واجد علی شاہ نے آپ کو اپنے دربار میں لے لیا۔ ریاض خیرآبادی، جلیل مانکپوری، مضطر خیرآبادی اور حفیظ جونپوری وغیرہ آپ کے مشہور شاگرد ہوئے ہیں۔ 1857ء غدر کے بعد رام پور کے نواب یوسف علی خان کی دعوت پر آپ رامپور آگئے جہاں نواب کے بیٹے کلب علی خان نے آپ کو اپنا استاد بنا لیا۔ نواب کلب علی خان کی موت کے بعد آپ کو رامپور چھوڑ دینا پڑا۔ 1900ء میں آپ حیدرآباد آئے لیکن کچھ دنوں میں ہی آپ بیمار پڑ گئے اور پھر 13 اکتوبر، 1900ء کو حیدرآباد (جنوبی ہندوستان) ہی میں آپ کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً 71 سال تھی۔
کام:
امیؔر مینائی ایک ایسے شاعر تھے جو اونچے طبقے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں میں بھی اسی طرح مقبول تھے۔ غزل، نظم، نعت، حمد، محبت، فلسفہ، تصوف وغیرہ آپ نے تقریبا تمام موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ 1852ء میں نواب واجد علی شاہ کے دربار سے وابستہ ہونے کے بعد، انہوں نے نواب صاحب کے حسبِ حکم دو کتا بیں، شادِ سلطان اور ہدایتِ سلطان لکھی۔ آپ کی شہرت دن بہ دن بڑھتی گئی، لوگ آپ کا موازنہ اس زمانے کے غالب اور داغ دہلوی جیسے شاعروں سے کرتے تھے، داغ دہلوی کے تو آپ شاعرانہ حریف تھے اگرچہ ذاتی زندگی میں وہ آپ کے دوست تھے۔ وہیں عظیم اردو شاعر، محمد اقبال بھی آپ کے پرستار تھے۔ آپ کا علم بہت وسیع تھا۔ آپ ایک شاعر، ایک مصنف، ایک لسانی سائنٹسٹ، صوفی اور موسیقار تھے۔ اس کے علاوہ آپ اسلامی قانون کے بھی اچھے علم داں تھے، آپ ایک سے زیادہ زبانوں کے بھی بہت اچھے جانکار تھے لیکن لکھا آپ نے صرف تین زبانوں میں ہی ہے، اردو، فارسی اور عربی۔ آپ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ آپ کا ایک دیوان غیرتِ بہارستان 1857ء کے ہنگا مے میں تباہ ہوگیا۔ موجودہ تصانیف میں دو بہاریہ دیوان 'میراتُل غیب' اور 'صنم خانا ئے عشق' اور ایک نعتیہ دیوان 'محمد خاتمُل نبيئین' ہے، اس کے علاوہ دو مثنوی 'نورِ تجلی' اور 'ابرِ کرم' ہیں۔ آپ کی 'ذکرِ شاہ انبیاں' بھی مسدس مولود شریف کے طور پر موجود ہیں۔ امیرالغات کی صرف دو جلدیں 'الف ممدوح' اور الف مقصودہ ہی شائع ہوئی ہیں۔ بہارِ ہند بھی آپ کی لکھی ہوئی ایک مختصر نعت ہے۔
اہم غزلیں:
☆ سرکتی جائے ہے رخ سے...
☆ پھولوں میں اگر ہے بو...
☆ ترا کیا کام اب دل میں غم...
☆ تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر...
☆ جب سے بلبل تو نے دو... (غزل پڑھیں)
☆ ہنس کے فرماتے ہیں وہ...
☆ اس کی حسرت ہے جسے...
☆ وصل کی شب بھی خفا وہ...
☆ ہم سر زلف قد حور شمائل...
☆ ہوئے نامور بے نشاں کیسے... (غزل پڑھیں)
☆ نہ بے وفائی کا ڈر تھا نہ غم...
☆ مرے بس میں یا تو یارب وہ...
☆ فراق یار نے بے چین مجھ کو...
☆ صاف کہتے ہو مگر کچھ نہیں...
☆ ہٹاؤ آئنہ امیدوار ہم...
☆ اے ضبط دیکھ عشق کی...
اہم غزلیں:
☆ سرکتی جائے ہے رخ سے...
☆ پھولوں میں اگر ہے بو...
☆ ترا کیا کام اب دل میں غم...
☆ تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر...
☆ جب سے بلبل تو نے دو... (غزل پڑھیں)
☆ ہنس کے فرماتے ہیں وہ...
☆ اس کی حسرت ہے جسے...
☆ وصل کی شب بھی خفا وہ...
☆ ہم سر زلف قد حور شمائل...
☆ ہوئے نامور بے نشاں کیسے... (غزل پڑھیں)
☆ نہ بے وفائی کا ڈر تھا نہ غم...
☆ مرے بس میں یا تو یارب وہ...
☆ فراق یار نے بے چین مجھ کو...
☆ صاف کہتے ہو مگر کچھ نہیں...
☆ ہٹاؤ آئنہ امیدوار ہم...
☆ اے ضبط دیکھ عشق کی...
●●●
Comments
Post a Comment