-
اتفاقاتِ زمانہ بھی عجب ہے ناصر
آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے
ناصر -
ناصر کاظمی
زند گی :
سید ناصر کاظمی دورِ جدید کے معروف شاعروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ شاعر کے علاوہ وہ ایک مصنف اور صحافی بھی رہے ہیں۔ جدید انکی پیدائش 8 دسمبر 1925ء کو امبالہ، پنجاب، برطانوی ہندوستان میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد محمد سلطان کاظمی رائل انڈین آرمی میں صوبیدار میجر کے عہدے پر فائز تھے۔
والد کے پیشہ ورانہ تبادلوں کی وجہ سے آپ کا بچپن کئی شہریو میں گزرا تھا۔ شروعاتی تعلیم شملہ میو حاصل کرنے کی۔ میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ سے کرنے کے بعد آگے کی تعلیم کے لئے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ ناصر کاظمی وہاں کے ایک ہوسٹل میں رہتے تھے۔ اُنکے استادِ خاص رفیق خوار اُن سے ملنے کہ لئے اقبال ہوسٹل میں آتے رہتے تھے۔ والد انکے کمرے۔ میں شعر و شاعری پر بات چیت ہوتی۔ اسی سے انکے اندر شعر و شاعری اور ادبی شوق پیدا ہوا۔ 1947ء میں پاکستان بننے کے بعد آپ لاہور ہی میں بس گئے تھے۔ آپ پاکستان ٹیلیویژن (پی ٹی وی)، دیگر ٹی وی شوز سے جڑے رہے تھے۔ آپکی شاعری کا استعمال بالی ووڈ کی فلموں میں بھی کیا گیا ہے۔
بطور ایڈیٹر آپ نے اوراقِ نو کے لئے صحافت کا کچھ کام کیا۔ 1952 ء میں آپ ہمایوں رسالہ کے ایڈیٹر ان چیف بن گئے۔ بعد میں آپ ریڈیو پاکستان اور دیگر ادبی اداروں اور پبلیکیشنز کے ساتھ جڑ گئے تھے۔ اپنے دوستوں کے ساتھ پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھنا اور مال روڈ لاہور پر ٹہلنا آپ کا پسندیدہ شغل تھا۔ آپ گھومنے پھرنے اور کھانے پینے کے بہت شوقین تھے۔ آپ کا انتقال 2 1972 مارچ ء کو 46 سال کی عمر میں پیٹ کے کینسر کی وجہ سے ہوا۔ آپ کو لاہور کے مومن پورہ قبرستان میں دفنایا گیا۔
کام :
دور جدید کے میر کہلانے والے شاعر ناصر کاظمی کی شاعری انسانی جذبات کی بہترین ترجمان ہے۔ اس شاعر نے اپنی 46 سالہ زندگی کا بیشتر حصہ چائے خانوں، اور رات کی کہانیاں سناتی ویران سڑکوں پر رتجگے کرتے ہوئے گزارا تھا۔ اُن کی بہترین نظمیں اور غزلیں انہیں رتجگوں کا نچوڑ ہیں۔
وہ خاص طور پر اپنی غزلوں میں چھوٹی بہر کے لئے جانے جاتے تھے۔ ناصر کاظمی نے اپنی شاعری میں آسان الفاظ جیسے چاند، رات، بارش، موسم، یاد، تنہائی، دریا وغیرہ کا استعمال کرکے اپنی شاعری کو ایک نئے انداز سے پیش کیا اور اس سے ان کی شاعری کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔ حالانکہ آپ اپنی غمگین شاعری کے لئے جانے جاتے ہیں لیکن زیادہ تر آپ نے رومانٹک شاعری ہی لکھی ہے جو خوشی اور امید سے بھر پور ہے۔
ناصر کاظمی ایک سچے تخلیق کار تھے، وہی لکھتے جو دل پر گزرتی۔ ناصر کاظمی نہ صرف شاعر تھے بلکہ شاعر دکھائی بھی دیتے تھے۔ ایک گہری سوچ اور فکر اُنکے چہرے پر ہمہ وقت ڈیرہ جمائے رہتی تھی۔ ملک کے بنٹوارے کا بھیانک منظر انکی آنکھوں کے سامنے سے گزرا اسی لئے آپ کی شاعری میں کہیں کہیں بنٹوارے کا درد اور چبھن بھی نظر آتی۔ ہے۔
وہ خاص طور پر اپنی غزلوں میں چھوٹی بہر کے لئے جانے جاتے تھے۔ ناصر کاظمی نے اپنی شاعری میں آسان الفاظ جیسے چاند، رات، بارش، موسم، یاد، تنہائی، دریا وغیرہ کا استعمال کرکے اپنی شاعری کو ایک نئے انداز سے پیش کیا اور اس سے ان کی شاعری کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔ حالانکہ آپ اپنی غمگین شاعری کے لئے جانے جاتے ہیں لیکن زیادہ تر آپ نے رومانٹک شاعری ہی لکھی ہے جو خوشی اور امید سے بھر پور ہے۔
ناصر کاظمی ایک سچے تخلیق کار تھے، وہی لکھتے جو دل پر گزرتی۔ ناصر کاظمی نہ صرف شاعر تھے بلکہ شاعر دکھائی بھی دیتے تھے۔ ایک گہری سوچ اور فکر اُنکے چہرے پر ہمہ وقت ڈیرہ جمائے رہتی تھی۔ ملک کے بنٹوارے کا بھیانک منظر انکی آنکھوں کے سامنے سے گزرا اسی لئے آپ کی شاعری میں کہیں کہیں بنٹوارے کا درد اور چبھن بھی نظر آتی۔ ہے۔
آپ کی چار کتابیں آپکے انتقال کے بعد شائع ہوئی تھی۔ برگِ نو (1952)، دیوان (1972)، پہلی بارش (1975)، غزلوں کے مجموعے ہیں جبکہ نشاطِ خواب (1977) ایک نظم کامجموعہ ہے۔
اہم غزلیں:
* اب ان سے اور تقاضائے۔۔۔
* آج تو بے سبب اداس۔۔۔
* پھر ساون رت کی پون۔۔۔
* نہ آنکھیں ہی برسی نہ۔۔۔
* سر میں جب عشق کا۔۔۔
* نیت شوق بھر نہ۔۔۔
* کیا زمانہ تھا کہ ہم روز۔۔۔
* کل جنہیں زندگی تھی۔۔۔
* یہ شب یہ خیال۔۔۔
* یاد آتا ہے روز و شب۔۔۔
* یہ رات تمہاری ہے چمکتے۔۔۔
* حسن کو دل میں چھپا۔۔۔
* تم آ گئے ہو تو کیوں انتظار۔۔۔
* تیری زلفوں کے بکھرنے۔۔۔
* وہ دل نواز ہے لیکن نظر۔۔۔
* وں ترے حسن کی تصویر۔۔۔
* وہ اس ادا سے جو آئے تو۔۔۔
* گرفتہ دل ہیں بہت آج۔۔۔
* سناتا ہے کوئی بھولی۔۔۔
* دفعتاً دل میں کسی یاد۔۔۔
* زباں سخن کو سخن۔۔۔
* دیار دل کی رات میں۔۔۔
* وہ ساحلوں پہ گانے والے۔۔۔
* دیکھ محبت کا۔۔۔
* ہوتی ہے تیرے نام سے۔۔۔
* اولیں چاند نے کیا بات۔۔۔
* دور فلک جب دہراتا ہے۔۔۔
* کون اس راہ سے گزرتا۔۔۔
* دل میں اک لہر سی اٹھی۔۔۔
* آرائش خیال بھی ہو دل۔۔۔
* یہ بھی کیا شام ملاقات۔۔۔
* اپنی دھن میں رہتا۔۔۔
* کچھ یادگار شہر ستم گر۔۔۔ (غزل پڑھیں)
* یہ ستم اور کہ ہم پھول۔۔۔
* کوئی صورت آشنا اپنا نہ۔۔۔
* اس سے پہلے کہ بچھڑ۔۔۔
* بنے بنائے ہوئے راستوں پہ۔۔۔
* مسلسل بیکلی دل کو۔۔۔
* رہِ جنوں میں خدا کا۔۔۔
* دل میں اور تو کیا۔۔۔
* تو ہے یا تیرا سایا۔۔۔
⚫⚫⚫
Comments
Post a Comment