Skip to main content

Daagh Dehelvi: The Shayar of Romance (in Urdu)




 شبِ وصال ہے گل کر دو  ان  چراغوں  کو 
خوشی کی بزم میں کیا کام  جلنے  والوں کا
                                    - داغ

داغؔ دہلوی

زندگی:
     نواب مرزا خان داغ کا پورا نام نواب مرزا خان اور تخلص داغ ہے۔ 25 مئ 1831ء کو آپ کی پیدائش دہلی کے چاندنی چوک علاقے کی گلی استاد باغ میں ہوئی۔ دہلی میں پیدا ہونے کی وجہ سے داغ دہلوی کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کے اجداد اٹھارویں صدی میں سمرقند سے ہندوستان آکر آباد ہوئے تھے۔ آپ کے والد  نواب شمس الدین خان صاحب جو فیروزپور جھرکا کے نواب تھے۔ چھ سال کی عمر میں ہی آپ کے والد صاحب  کا انتقال ہو گیا تھا۔ بعد میں آپ کی والدہ وزیر خانم نے بہادرشاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو سے شادی کر لی اور پھر انہیں کے ساتھ داغ بھی شاہی قلعہ میں آکر رہنے لگے اور وہیں آپ کی پرورش ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر اور مرزا فخرو دونوں شیخ محمد ابراہیم ذوق کے شاگرد تھے۔ لہذا داغ کو بھی ذوق سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ داغ کی زبان سنوارنے میں ذوق کا یقیناً بڑا ہاتھ رہا تھا۔

     1857ء کے غدر کے بعد داغ اپنی والدہ اور اپنی بیوی کے ہمراہ دلی سے رام پور چلے گئے جہاں آپ نواب یوسف علی خان اور پھر اُنکے بیٹے نواب کلب علی خان کی سرپرستی میں رہے۔ وہاں آپ کو منی بائی حجاب سے محبت ہو گئی۔ اور اس کے عشق میں آپ کلکتہ تک ہو آئے۔ اس معاشقہ کے وقت داغ کی عمر پچاس برس تھی۔ مثنوی فریادِ عشق میں اس واقعہ کو تفصیل سے بتایا گیا ہے۔
نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد آپ حیدر آباد چلے گئے جہاں انہیں دبیرالدولہ، فصیح الملک ، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب ملے۔

     فالج کی وجہ سے آپ کی وفات 73 سال کی عمر میں 17 مارچ 1905ء کو حیدرآباد دکن میں ہوئی۔


کام:
     داغ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ انہوں نے دوسری اصناف سخن  میں بھی ہاتھ آزمایا ہے۔ داغ دہلوی دبستانِ دہلی سے وابستہ تھے۔ لیکن آپ کی شاعری میں لکھنؤ کے بھی اثرات دیکھے جاتے ہے۔ یہی آپ کی شاعری کو خاص بناتے ہیں۔  گویا داغ کی شاعری دہلی اور لکھنؤ کی شاعری کا ملن ہے۔
آپ نے اپنی شاعری پر کبھی مغربی اثرات کو نہیں پڑنے دیا۔ عشق و عاشقی ان کے لیے ایک سنجیدہ یا مہذب طرزِ عمل نہیں بلکہ کھیلنے اور تفریح کی چیز ہے۔ انہیں نہ احترام عشق ہے اور نہ پاسِ ناموس، بس اپنا مطلب نکالنے سے غرض ہے۔ اسی لیے محبوب سے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ عاشق جو مومن کے یہاں محض ہرجائی تھا و داغ کے ہاں ہوس پرست کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے عریانی اور فحاشی سبھی کچھ اُنکے کلام میں موجود ہے۔ زبان میں صفائی کے ساتھ ساتھ محاورہ بندی کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ جو اُن کے استاد ذوق کا اثر ہے۔

     زمانہ نے داغ کی خوب قدر کی اور خط و کتابت کے ذریعہ سے تمام ہندوستان سے غزلیں اصلاح کےلیے آپ کے پاس آتی تھیں۔اقبال نے بھی آپ کو کئی غزلیں اصلاح کے لیے روانہ کی تھی۔
داغ کا اہم کام درجہ ذیل ہے:
 🔷 گلزارِ داغ (1878ء)
 🔷 مثنوی فریادِ داغ (1882ء)
 🔷 آفتابِ داغ (1885ء)
 🔷 مہتابِ داغ (1893ء)
 🔷 یادگارِ داغ (1905ء)
 🔷 دیوانِ داغ


اہم غزلیں:
      ❤️ سبق ایسا پڑھا دیا۔۔۔
      ❤️ کعبے کی ہے ہوس کبھی۔۔۔
      ❤️ ایک تو حسن بلا اس پہ۔۔۔
      ❤️ ممکن نہیں کہ تیری محبت۔۔۔
      ❤️ جب وہ بُت ہمکلام ہوتا۔۔۔
      ❤️ کہتے ہیں جس کو حور وہ۔۔۔
      ❤️ فلک دیتا ہے جن کو عیش۔۔۔
      ❤️ خاطر سے یا لحاظ سے میں۔۔۔
      ❤️ تماشائے دیر و حرم دیکھتے۔۔۔
      ❤️ ڈرتے ہیں چشم و زلف و نگاہ۔۔۔
      ❤️ لے چلا جان مری روٹھ کے۔۔۔
      ❤️ غضب کیا تیرے وعدے۔۔۔ (غزل پڑھیں)
      ❤️ سبب کھلا یہ ہمیں اُن کے۔۔۔
      ❤️ تمھارے خط میں نیا اک سلام۔۔۔
      ❤️ دنیا میں آدمی کو مصیبت۔۔۔
      ❤️ گیا تم نے لیا ہم کیا۔۔۔
      ❤️ اس ادا سے وہ جفا کرتے۔۔۔
      ❤️ پھرے راہ سے وہ یہاں۔۔۔
      ❤️ کعبے کی سمت جا کے۔۔۔
      ❤️ زباں ہلاؤ تو ہو جائے۔۔۔
      ❤️ آرزو ہے وفا کرے۔۔۔
      ❤️ آپ کا اعتبار کون۔۔۔
      ❤️ اب وہ یہ کہ رہے ہیں مری مان۔۔۔
      ❤️ اس قدر ناز ہے کیوں آپ کو۔۔۔
      ❤️ گر ہو سلوک کرنا انسان۔۔۔
      ❤️ تم کو کیا ہر کسی سے۔۔۔
      ❤️ عجب اپنا حال ہوتا جو۔۔۔
      ❤️ عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے۔۔۔
      ❤️ بھنویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ۔۔۔
      ❤️ ابھی ہماری محبت کسی کو۔۔۔
      ❤️ غم سے کہیں نجات ملے۔۔۔
      ❤️ اب دل ہے مقام بے کسی۔۔۔
      ❤️ ساز یہ کینہ ساز کیا۔۔۔
      ❤️ اس کے در تک کسے۔۔۔
      ❤️ پھرے راہ سے وہ یہاں آتے۔۔۔
      ❤️ کس نے کہا کہ داغ وفا دار۔۔۔
      ❤️ جلوے مری نگاہ میں کون۔۔۔
      ❤️ باقی جہاں میں قیس نہ۔۔۔
      ❤️ آئینہ تصویر کا تیرے نہ لے۔۔۔
      ❤️ اچھی صورت پہ غضب۔۔۔
      ❤️ دلِ ناکام کے ہیں کام۔۔۔
      ❤️ کھلتا نہیں ہے راز ہمارے۔۔۔
      ❤️ ستم ہے کرنا جفا ہے کرنا۔۔۔
                       ⚫⚫⚫

Comments

Popular posts from this blog

Khwaja Meer Dard: The Sufi Urdu Poet (in Urdu)

۔        تر دامنی  پہ شیخ  ہماری  نہ  جا  ابھی       دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو  کریں                                    خواجہ میر  درؔد        خواجہ میر درؔد     زندگی:           خواجہ میر درؔد کا نام سید خواجہ میر اور درؔد تخلص تھا باپ کا نام خواجہ محمد  ناصر تھا جو فارسی کے اچھے شاعر تھے اور عندلیؔب تخلص کرتے تھے۔ آپ کا نسب خواجہ بہاو الدین نقشبندی سے والد کی طرف سے اور حضرت غوثِ اعظم سید عبدالقادر جیلانی سے والدہ کی طرف سے ملتا ہے۔ آپ کا خاندان بخارا سے ہندوستان آیا تھا۔  خواجہ میر درد دہلی میں 1720ء میں پیدا ہوئے اور ظاہری و باطنی کمالات اور جملہ علوم اپنے والد محترم سے وراثت میں حاصل کیا۔ درویشانہ تعلیم نے روحانیت کو جلا دی اور تصوف کے رنگ میں ڈوب گئے۔ آغاز جوانی میں سپاہی پیشہ تھے۔ پھر 29 سال کی عمر میں دنیاداری سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور 39 سال کی عمر میں والد صاحب کے انتقال کے بعد سجادہ نشین ہوئے۔ درد نے شاعری اور تصوف ورثہ میں پائے۔ ذاتی تقدس، خودداری، ریاضت و عبادت کی وجہ سے امیر غریب بادشاہ فقیر سب ان کی عزت کرتے تھے۔           وہ ایک باعمل صوفی تھے ا

Khwaja Meer Dard: The Sufi Urdu Poet (in Hindi)

 - तर दामनी पे शेख हमारी न जा अभी दामन  निचोड़ दें तो फरिश्ते वज़ू करें                        - ख़्वाजा मीर 'दर्द'            ख़्वाजा मीर 'दर्द'  जीवन:           ख़्वाजा मीर 'दर्द' मशहूर उर्दू शायर थे. आप का पूरा नाम सय्यद ख़्वाजा मीर और 'दर्द' आपका तख़ल्लुस़ (क़लमी नाम) था. आप के वालिद का नाम ख़्वाजा मुह़म्मद नास़िर था, जो फ़ारसी के एक जाने माने कवि थे और जिनका तख़ल्लुस़ 'अंदलीब' था. ख़्वाजा बहाउद्दीन नक्शबंदी, वालिद साहब की तरफ से और हज़रत ग़ौसे आज़म सय्यद अब्दुल क़ादिर जिलानी, मां की त़रफ़ से आपके पूर्वजों में से थे. आपका ख़ानदान बुख़ारा से हिजरत करके हिंदुस्तान आया था. ख़्वाजा मीर 'दर्द' का जन्म 1720 ई० में दिल्ली में हुआ था और आपका शायराना और सूफ़ियाना फ़न आपको अपने पिता से विरासत में मिला था. सूफ़ी तालीम ने रूह़ानियत को जिला दी और आप तस़व्वुफ़ (आध्यामिकता) के रंग में डूब गए. शुरू जवानी में आप ने फ़ौजी का पेशा अपनाया लेकिन फिर आप का मन दुनियादारी से उचट गया और 29 साल की उम्र में दुनिया के झमेलों से किनारा कशी अख

Bashir Badr: The Urdu Shayar (in Hindi)

- बड़े लोगों से मिलने में हमेशा फासला रखना, जहाँ दरया समंदर से मिला दरया नहीं रहता.                                       —बशीर बद्र बशीर ब द्र  ज़िन्दगी:       उर्दू के महान शायर डॉक्टर बशीर  बद्र का जन्म 15 फरवरी 1935 ई०  को  फैजाबाद में हुआ था, जो इस वक़्त भारत में उत्तर प्रदेश के ज़िला अयोध्या का एक शहर है. आप की तालीम अलीगढ़ मुस्लिम यूनिवर्सिटी से हुई थी. आप की बीवी राहत बद्र हैं और आपके तीन बेटे नुसरत बद्र, मासूम बद्र, तैयब बद्र और एक बेटी सबा बद्र हैं. अपनी तालीम के दौरान आप अलीगढ़ यूनिवर्सिटी के इलाक़े में रहते थे. बाद में आप  मेरठ में भी कुछ वक़्त रहे हैं जब दंगों में आपका घर जल गया था. इसके बाद कुछ वक़्त दिल्ली में रहे और फिर भोपाल में आप मुस्तकिल तौर पर बस गए.  मौजूदा वक़्त में आप दिमाग़ की बीमारी डिमेंशिया से गुज़र रहे हैं और अपने शायरी का जीवन की आप को याद नहीं है. काम:       भारत में पॉप कल्चर के सबसे लोकप्रिय कवि यदि कोई हैं, तो डॉ0 बशीर बद्र है. विविध भारती रेडियो के मशहूर प्रोग्राम ‘उजाले अपनी यादों के’ का टाइटल आप ही के एक मशहूर शेर से लि