Skip to main content

Insha Allah Khan: One of greatest Indian poet (in Urdu)

    ۔  
          
             
                   انشاء اللہ خاں انشؔاء
زندگی:
     سید انشاء اللہ خاں انشؔاء اپنے زمانے کے نامور شعراء میں تھے۔ آپ کے والد میر ماشااللہ خان صاحب تھے۔ جو ایک جانے مانے حکیم تھے۔ ان کے بزرگ نجف اشرف کے رہنے والے تھے جو عراق میں بغداد سے قریب 160 کیلومیٹر واقع ایک شہر ہے۔ یہ لوگ مغلیہ عہد میں وہاں سے ہندوستان  تشریف لائے۔ کئی پشتیں بادشاہوں کی سرپرستی میں گزارنے کے بعد جب مغل حکومت کا  زوال آیا تو ماشاء اللہ خان دہلی چھوڑ کر بنگال کے مرشد آباد شہر چلے گئے تھے جہاں ماشا اللہ خان کو نواب سراج الدولا نے اپنے دربار میں لے لیا۔ دسمبر 1752ء میں مرشد آباد میں ہی انشؔاء کی پیدائش ہوئی تھی۔ شاہ عالم دوم کے وقت میں انشؔاء اللہ خاں دلّی آ گئے تھے۔ 1780ء میں آپ مرزا نجف بیگ کی فوج میں شامل ہو گئے لیکن آپ کی شاعرانہ صلاحیتوں کی وجہ سے جلد ہی آپ کی پہنچ شاہی دربار تک ہو گئی۔ شاہ عالم دوم نے اُنہیں خوب عزت بخشی اور انکی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ یہاں تک اس دور کے مرزا عظیم بیگ جیسے شعراء سے انکی شاعرانہ رقابت ہو گئی۔ لیکن شاہ عالم دوم بھی نام کے ہی بادشاہ تھے 1788ء میں جب شاہ عالم دوم كو تخت سے ہٹا دیا گیا تو آپ روزی روٹی کی تلاش میں لکھنؤ چلے آئے۔ 1791ء میں آپ مرزا سلیمان سکوہ کے دربار میں آ گئے۔ اس دربار میں انکی یادگار رقابت مرزا کے استاد  مصحؔفی سے ہوئی اور آخر میں  مصحؔفی کے عہدے کو اُنہونے اپنی لیاقت سے چھین ہی لیا۔ بعد میں سعادت علی خان جب اودھ کے نئے حکمران بنے تو آپ اُنکے دربار میں آ گئے۔ لیکن پھر محمد حسین آزاؔد جیسے کچھ مصنف اور شعراء انشؔاء کے زوال کا سبب بنے۔ وہ اپنی مزاح شاعری اور گستاخانہ مذاق کے لئے جانے جاتے تھے اور ایسے ہی ایک گستاخانہ مذاق کی وجہ سے نواب صاحب خفا ہو گئے اور اُنہیں دربار سے نکال دیا اور آخر کار اپنا آخری وقت اُنہونے بہت مفلسی اور بیماری میں گزارا۔ انشؔاء نے 1817ء میں لکھنؤ میں ہی وفات پائی۔


کام:
     انشؔاء نے اردو فارسی عربی تینوں زبانوں میں لکھا ہے اور تھوڑا بہت اُنہونے ترکی اور پنجابی زبان میں بھی لکھا ہے۔ انشؔاء کی ذہانت اور جدت پسندی انہیں اپنے زمانے کے شعراء میں ہی ایک الگ مقام نہیں دلایا بلکہ ادب کی تاریخ میں بھی انکا رتبہ الگ ہی رکھا۔ انشؔاء اپنے دو اہم کام کے لئے بہت مشہور ہیں۔ ایک رانی کیتکی کی کہانی جس میں عربی فارسی کا ایک لفظ نہ آنے دیا حالانکہ اسکا رسم الخط اُردو تھا لیکن اسے ہندی کی پہلی کہانی مانا جاتا ہے جسے 1803 یا 1808ء میں لکھا گیا تھا۔ یہ ایک رومانٹک کہانی تھی جس میں کنور اُدےبھان اور رانی کیتکی کے بیچ کی محبت کو دکھایا گیا ہے۔ دوسرا کام اُنکا دریائے لطافت ہے دریائے اس میں اردو زبان کے بیان و قواعد پر کسی نے پہلی بار روشنی ڈالی۔

     انشؔاء نے غزل میں الفاظ کو الگ الگ طرح سے استعمال کرکے اس میں تازگی  پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔ پھر بھی کہیں کہیں محض قافیہ پیمائی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ انشؔاء کی غزل کا عاشق لکھنوی تہذیب اور تمدن کا نمائندہ ایک بانکا جوان ہے۔ جس نے بعد میں روایتی حیثیت اختیار کر لی. جس حاضر جوابی اور لطیفہ گوئی نے انہیں نواب سعادت علی خاں کا چہیتا بنا دیا تھا۔ اس نے غزل میں مزاح کی ایک نئی طرح بھی ڈالی۔ زبان میں دہلی کی گھلاوٹ برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ اس لیے اشعار میں زبان کے ساتھ ساتھ جو چیز نمایاں ہے اسے محض انشائیت ہی کہا جاسکتا ہے۔


اہم غزلیں:
     ☆مل گئے پر حجاب باقی۔۔۔
     ☆دل کے نالوں سے جگر۔۔۔
     ☆وصل میں رکھیے مجھے یا۔۔۔
     ☆مستی ہی تيری آنکھوں۔۔۔
     ☆سودا زندہ ہے تو يہ تدبير۔۔۔
     ☆آنے اٹک اٹک کے لگی سانس۔۔۔
     ☆ہے ترا گال مال بوسے۔۔۔
     ☆اچھا جو خفا ہم سے ہو تم۔۔۔
     ☆تو نے لگائی اب کی یہ کیا۔۔۔
     ☆کمر باندھے ہوئے چلنے کو۔۔۔
     ☆بندگی ہم نے تو جی سے۔۔۔
     ☆نرگس نے پھر نہ ديکھا جو۔۔۔
     ☆بستی تجھ بن اجاڑ سی۔۔۔
     ☆ٹک آنکھ ملاتے ہی کیا۔۔۔
     ☆دھوم اتنی ترے دیوانے۔۔۔
     ☆پکڑی کسی سے جاوے نسیم۔۔۔
     ☆کیا ملا ہم کو تیری یاری۔۔۔
     ☆مل خون جگر میرا ہاتھوں۔۔۔
     ☆ترک کر اپنے ننگ و نام کو۔۔۔
             ●●●

Comments

Popular posts from this blog

Khwaja Meer Dard: The Sufi Urdu Poet (in Urdu)

۔        تر دامنی  پہ شیخ  ہماری  نہ  جا  ابھی       دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو  کریں                                    خواجہ میر  درؔد        خواجہ میر درؔد     زندگی:           خواجہ میر درؔد کا نام سید خواجہ میر اور درؔد تخلص تھا باپ کا نام خواجہ محمد  ناصر تھا جو فارسی کے اچھے شاعر تھے اور عندلیؔب تخلص کرتے تھے۔ آپ کا نسب خواجہ بہاو الدین نقشبندی سے والد کی طرف سے اور حضرت غوثِ اعظم سید عبدالقادر جیلانی سے والدہ کی طرف سے ملتا ہے۔ آپ کا خاندان بخارا سے ہندوستان آیا تھا۔  خواجہ میر درد دہلی میں 1720ء میں پیدا ہوئے اور ظاہری و باطنی کمالات اور جملہ علوم اپنے والد محترم سے وراثت میں حاصل کیا۔ درویشانہ تعلیم نے روحانیت کو جلا دی اور تصوف کے رنگ میں ڈوب گئے۔ آغاز جوانی میں سپاہی پیشہ تھے۔ پھر 29 سال کی عمر میں دنیاداری سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور 39 سال کی عمر میں والد صاحب کے انتقال کے بعد سجادہ نشین ہوئے۔ درد نے شاعری اور تصوف ورثہ میں پائے۔ ذاتی تقدس، خودداری، ریاضت و عبادت کی وجہ سے امیر غریب بادشاہ فقیر سب ان کی عزت کرتے تھے۔           وہ ایک باعمل صوفی تھے ا

Khwaja Meer Dard: The Sufi Urdu Poet (in Hindi)

 - तर दामनी पे शेख हमारी न जा अभी दामन  निचोड़ दें तो फरिश्ते वज़ू करें                        - ख़्वाजा मीर 'दर्द'            ख़्वाजा मीर 'दर्द'  जीवन:           ख़्वाजा मीर 'दर्द' मशहूर उर्दू शायर थे. आप का पूरा नाम सय्यद ख़्वाजा मीर और 'दर्द' आपका तख़ल्लुस़ (क़लमी नाम) था. आप के वालिद का नाम ख़्वाजा मुह़म्मद नास़िर था, जो फ़ारसी के एक जाने माने कवि थे और जिनका तख़ल्लुस़ 'अंदलीब' था. ख़्वाजा बहाउद्दीन नक्शबंदी, वालिद साहब की तरफ से और हज़रत ग़ौसे आज़म सय्यद अब्दुल क़ादिर जिलानी, मां की त़रफ़ से आपके पूर्वजों में से थे. आपका ख़ानदान बुख़ारा से हिजरत करके हिंदुस्तान आया था. ख़्वाजा मीर 'दर्द' का जन्म 1720 ई० में दिल्ली में हुआ था और आपका शायराना और सूफ़ियाना फ़न आपको अपने पिता से विरासत में मिला था. सूफ़ी तालीम ने रूह़ानियत को जिला दी और आप तस़व्वुफ़ (आध्यामिकता) के रंग में डूब गए. शुरू जवानी में आप ने फ़ौजी का पेशा अपनाया लेकिन फिर आप का मन दुनियादारी से उचट गया और 29 साल की उम्र में दुनिया के झमेलों से किनारा कशी अख

Bashir Badr: The Urdu Shayar (in Hindi)

- बड़े लोगों से मिलने में हमेशा फासला रखना, जहाँ दरया समंदर से मिला दरया नहीं रहता.                                       —बशीर बद्र बशीर ब द्र  ज़िन्दगी:       उर्दू के महान शायर डॉक्टर बशीर  बद्र का जन्म 15 फरवरी 1935 ई०  को  फैजाबाद में हुआ था, जो इस वक़्त भारत में उत्तर प्रदेश के ज़िला अयोध्या का एक शहर है. आप की तालीम अलीगढ़ मुस्लिम यूनिवर्सिटी से हुई थी. आप की बीवी राहत बद्र हैं और आपके तीन बेटे नुसरत बद्र, मासूम बद्र, तैयब बद्र और एक बेटी सबा बद्र हैं. अपनी तालीम के दौरान आप अलीगढ़ यूनिवर्सिटी के इलाक़े में रहते थे. बाद में आप  मेरठ में भी कुछ वक़्त रहे हैं जब दंगों में आपका घर जल गया था. इसके बाद कुछ वक़्त दिल्ली में रहे और फिर भोपाल में आप मुस्तकिल तौर पर बस गए.  मौजूदा वक़्त में आप दिमाग़ की बीमारी डिमेंशिया से गुज़र रहे हैं और अपने शायरी का जीवन की आप को याद नहीं है. काम:       भारत में पॉप कल्चर के सबसे लोकप्रिय कवि यदि कोई हैं, तो डॉ0 बशीर बद्र है. विविध भारती रेडियो के मशहूर प्रोग्राम ‘उजाले अपनी यादों के’ का टाइटल आप ही के एक मशहूर शेर से लि