Skip to main content

Moeen Ahsan Jazbi: The Shayar with a lot of emotions (in Urdu)

زندگی ہے تو بہر حال بسر بھی ہو گی
   شام آئی ہے تو آنے دو سحر بھی ہو گی   
                     معین احسن جذبی


 معین احسن جزبؔی
       
زندگی:
           اترپردیش کے اعظم گڑھ ضلع میں مبارکپور نام کا ایک قصبہ ہے یہیں معین احسن جذبی کی پیدائش 1912ء میں ہوئی تھی۔ آپ کو شروع سے ہی مالی بدحالی کا سامنا کرنا پڑا اور سوتیلی ماں کا سلوک بھی اُن کے ساتھ بالکل بھی اچھا نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ اداس رہا کرتے تھے۔ پھر اپنی نجی زندگی سے نظر ہٹاکر آپ نے اردو شاعری کی طرف دھیان لگایا اور اردو ادب کی مشہور شخصیتوں کے کام کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ اُنکے اندر خداداد صلاحیت تو تھی ہی اسلئے مطالعہ کرتے کرتے آپ نے نو عمری ہی سے اشعار لکھنا شروع کر دیا تھا۔


          1929ء میں آپ نے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی اور اسکے بعد سینٹ جان کالج، آگرہ سے انٹرمیڈیٹ بھی مکمل کر لیا۔ پھر جذبی نے دہلی کے اینگلو عربی کالج میں داخلہ لیا اور یہیں سے بی اے مکمل کیا۔ 1941ء میں انہوں نے علی گڑھ کا رخ کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔

           1945ء میں آپ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اردو ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرر مقرر کر دیا گیا۔ 1956ء میں مولانا حالی کی زندگی کے اوپر بہترین تحقیقی مقالہ لکھنے کے لئے آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی۔ ملازمت کے ملنے پر جب روزی روٹی کے سردرد سے آپ کو فرصت ملی تو آپ کو اردو شعر و شاعری کی طرف دھیان دینے کا زیادہ وقت ملنے لگا۔ آپ کی قلم سے ایک سے بڑھ کر ایک شاہکار نکلنے لگے۔

          آپ کی شخصیت اور کردار بہت ہی اعلٰی درجے کا تھا اِس کی جیتی جاگتی مثال یہ تھی کہ آپ نے اپنی اس سوتیلی ماں کے آخری وقت میں انکی اچھی دیکھ بھال اور خدمت کی تھی جس نے بچپن میں اُن کے ساتھ اچھا سلوک اختیار نہیں کیا تھا۔ اردو زبان کا یہ عظیم شاعر 13 فروری 2005ء میں اس فانی دنیا سے رخصت ہو گیا۔


کام:
          17 سال کی عمر میں ہی آپ نے شاعری لکھنی شروع کر دی تھی۔ آپ کی نظم جس کا عنوان تھا ''فطرت ایک مفلس کی نظر میں'' کو بہت شہرت حاصل ہوئی اور آپ کی شہرت دھیرے دھیرے بڑھنے لگی۔ آپ 1936ء میں شروع ہوئی اردو ترقی پسند مصنفین کی تحریک کے ساتھ جڑ گئے۔ حالانکہ ایک شاعر کے طور پر آپ اس سے پہلے ہی مشہور ہو چکے تھے۔ وہ اپنی مشہور زمانہ غزل ’’ مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنا کون کرے 1933ء میں ہی لکھ چکے تھے اور اس سے انکی پہچان بھی بن چکی تھی۔

          ان کی شاعری ''فروزاں''، ''سخن مختصر"، "گدازِ شب" کے نام کے تحت چھپتی تھی۔ جذبی کی کلّیات کو ساہتیہ اکادمی کی جانب سے بعد از مرگ شائع کیا گیا۔ معین احسن جذبی کی شاعری مختلف رنگوں سے رنگی ہوئی تھی۔ اُن کی شاعری میں احساس کی تازگی اور جذبات کی گہرائی دیکھتے ہی بنتی ہے۔ یہی جذبات و احساسات کی گہرائی انھیں اپنے زمانے کے دوسرے ترقی پسند شاعروں سے بالکل الگ رکھتی ہے۔ اُن کی شاعری میں ہمیشہ ایک تازگی اور نیاپن رہتا تھا۔ جذبی مشرقی شاعری اور رسومات کے شیدائی تھے۔ جذبی کی نوجوانی کے دور کا زمانہ کم و بیش وہی تھا جو جنگِ آزادی کے شباب کا زمانہ تھا ۔ اسی طرح وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے با قاعدہ ممبر یا عہدے دارنہ رہے ہوں، لیکن ان کا حلقہ وہی تھا جن سے فیض، مخدوم، سردار جعفری ، جاں نثار اختر اور مجاز وغیرہ وابستہ تھے۔ جذبی نے بھی ترقی پسند تحریک کے زیر اثر خاصی تعداد میں سیاسی اشعار بھی لکھے ہیں۔ ان کے یہاں دار و رسن کا بھی ذکر ہے اور اجڑے ہوئے چمن کا بھی ذکر ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں فطرت اور دنیا کے دلکش نظاروں کو ایک مفلس کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن ان تمام باتوں کے با وجود انھوں نے عملی سیاست میں کبھی حصہ نہیں لیا ۔باکل اسی طرح انھوں نے اپنے آپ کو ادبی ہنگاموں اور معرکہ آرائیوں سے بھی ہمیشہ دور رکھا۔

          جذبی صاحب علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے برسوں وابستہ رہے۔ لیکن انھوں نے اپنے ارد گرد وفا دار شاگردوں اور مداحوں کا کو ئی ایسا گروہ جمع نہیں کیا جو ان کی شاعرانہ عظمت کا ڈھول بجاتا پھرتا۔ اپنے ہم عصروں اور اپنے بعد آنے والے تمام اہم شاعروں کے مقابلے میں آپ نے بہت کم لکھا ہے۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ سچ ہیں ، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جذبی کسی بھی دور میں نہ صرف یہ کہ گمنام نہیں رہے بلکہ ہر دور میں ان کا شمار صف اول کے غزل گو شعراء میں ہو تا رہا ہے۔




اہم غزلیں:
     // ہم دہر کے اس ویرانے۔۔۔
     // مرنے کی دعائیں کیوں۔۔۔ (غزل پڑھیں)
     // ملے غم سے اپنے فرصت۔۔۔
     // داغِ غمِ دل سے کسی طرح۔۔۔
     // جب کبھی کسی گل پر۔۔۔
     // شمیمِ زلف و گلِ تر نہیں۔۔۔
     // کوچہ یار میں اب جانے۔۔۔
     // زمیں آسماں چاند سورج۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

Khwaja Meer Dard: The Sufi Urdu Poet (in Hindi)

 - तर दामनी पे शेख हमारी न जा अभी दामन  निचोड़ दें तो फरिश्ते वज़ू करें                        - ख़्वाजा मीर 'दर्द'            ख़्वाजा मीर 'दर्द'  जीवन:           ख़्वाजा मीर 'दर्द' मशहूर उर्दू शायर थे. आप का पूरा नाम सय्यद ख़्वाजा मीर और 'दर्द' आपका तख़ल्लुस़ (क़लमी नाम) था. आप के वालिद का नाम ख़्वाजा मुह़म्मद नास़िर था, जो फ़ारसी के एक जाने माने कवि थे और जिनका तख़ल्लुस़ 'अंदलीब' था. ख़्वाजा बहाउद्दीन नक्शबंदी, वालिद साहब की तरफ से और हज़रत ग़ौसे आज़म सय्यद अब्दुल क़ादिर जिलानी, मां की त़रफ़ से आपके पूर्वजों में से थे. आपका ख़ानदान बुख़ारा से हिजरत करके हिंदुस्तान आया था. ख़्वाजा मीर 'दर्द' का जन्म 1720 ई० में दिल्ली में हुआ था और आपका शायराना और सूफ़ियाना फ़न आपको अपने पिता से विरासत में मिला था. सूफ़ी तालीम ने रूह़ानियत को जिला दी और आप तस़व्वुफ़ (आध्यामिकता) के रंग में डूब गए. शुरू जवानी में आप ने फ़ौजी का पेशा अपनाया लेकिन फिर आप का मन दुनियादारी से उचट गया और 29 साल की उम्र में दुनिया के झमेलों से किनारा कशी अख

Khwaja Meer Dard: The Sufi Urdu Poet (in Urdu)

۔        تر دامنی  پہ شیخ  ہماری  نہ  جا  ابھی       دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو  کریں                                    خواجہ میر  درؔد        خواجہ میر درؔد     زندگی:           خواجہ میر درؔد کا نام سید خواجہ میر اور درؔد تخلص تھا باپ کا نام خواجہ محمد  ناصر تھا جو فارسی کے اچھے شاعر تھے اور عندلیؔب تخلص کرتے تھے۔ آپ کا نسب خواجہ بہاو الدین نقشبندی سے والد کی طرف سے اور حضرت غوثِ اعظم سید عبدالقادر جیلانی سے والدہ کی طرف سے ملتا ہے۔ آپ کا خاندان بخارا سے ہندوستان آیا تھا۔  خواجہ میر درد دہلی میں 1720ء میں پیدا ہوئے اور ظاہری و باطنی کمالات اور جملہ علوم اپنے والد محترم سے وراثت میں حاصل کیا۔ درویشانہ تعلیم نے روحانیت کو جلا دی اور تصوف کے رنگ میں ڈوب گئے۔ آغاز جوانی میں سپاہی پیشہ تھے۔ پھر 29 سال کی عمر میں دنیاداری سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور 39 سال کی عمر میں والد صاحب کے انتقال کے بعد سجادہ نشین ہوئے۔ درد نے شاعری اور تصوف ورثہ میں پائے۔ ذاتی تقدس، خودداری، ریاضت و عبادت کی وجہ سے امیر غریب بادشاہ فقیر سب ان کی عزت کرتے تھے۔           وہ ایک باعمل صوفی تھے ا

Bashir Badr: The Urdu Shayar (in Hindi)

- बड़े लोगों से मिलने में हमेशा फासला रखना, जहाँ दरया समंदर से मिला दरया नहीं रहता.                                       —बशीर बद्र बशीर ब द्र  ज़िन्दगी:       उर्दू के महान शायर डॉक्टर बशीर  बद्र का जन्म 15 फरवरी 1935 ई०  को  फैजाबाद में हुआ था, जो इस वक़्त भारत में उत्तर प्रदेश के ज़िला अयोध्या का एक शहर है. आप की तालीम अलीगढ़ मुस्लिम यूनिवर्सिटी से हुई थी. आप की बीवी राहत बद्र हैं और आपके तीन बेटे नुसरत बद्र, मासूम बद्र, तैयब बद्र और एक बेटी सबा बद्र हैं. अपनी तालीम के दौरान आप अलीगढ़ यूनिवर्सिटी के इलाक़े में रहते थे. बाद में आप  मेरठ में भी कुछ वक़्त रहे हैं जब दंगों में आपका घर जल गया था. इसके बाद कुछ वक़्त दिल्ली में रहे और फिर भोपाल में आप मुस्तकिल तौर पर बस गए.  मौजूदा वक़्त में आप दिमाग़ की बीमारी डिमेंशिया से गुज़र रहे हैं और अपने शायरी का जीवन की आप को याद नहीं है. काम:       भारत में पॉप कल्चर के सबसे लोकप्रिय कवि यदि कोई हैं, तो डॉ0 बशीर बद्र है. विविध भारती रेडियो के मशहूर प्रोग्राम ‘उजाले अपनी यादों के’ का टाइटल आप ही के एक मशहूर शेर से लि