Skip to main content

'Hasrat' Mohani: The Free Urdu Poet (in Urdu)

                              
برسات  کے آتے  ہی  توبہ نہ رہی  باقی
بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی
                                حسرؔت موہانی
 ۔حسرؔت موہانی
           زندگی:
          مولانا حسرؔت موہانی، ایک اعلیٰ درجے کے صحافی،  سیاستدان، مجاہد آزادی اور ایک عظیم اردو شاعر تھے۔ آپ نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں بہت جدوجھد کی اور اس کے لیے بہت سی مصیبتوں کا سامنا بھی کیا۔ آپ کی پیدائش 4 اکتوبر، 1875 کو برطانوی بھارت میں یونائیٹڈ پرووینس کے اناؤ ضلع کے موہان قصبے میں ہوئی تھی، جو اب بھارت کے اترپردیش صوبے میں واقع ہے۔ آپ کا اصل نام سید فضل الحسن تھا۔ آپ کا قلمی نام 'حسرؔت' تھا اور موہان آپ کی پیدائش کی جگہ تھی لہذا آپ حسرؔت موہانی کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کے والد سید اظہر حسین تھے اور آپ کے اجداد ایران کے نیشاپور سے ہندوستان آکر بس گئے تھے۔ آپ نے اپنی چچازاد بہن نشاط النساء سے شادی کی جو ایک تعلیم یافتہ اور باہمت عورت تھی۔ 1937 میں اپنی اہلیہ کی موت پر آپ بہت غم زدہ ہوئے۔
          آپ نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور 1903 میں آپ نے علیگڑھ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور اسی سال آپ نے علیگڑھ سے اُردو رسالہ ' اردوئے معلی' نکالنی شروع کیا۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی دونوں  علیگڑھ میں آپ کے ہم جماعت تھے۔ اور آپ کے اساتذہ میں تسنیم لکھنوی اور نسیم دہلوی تھے۔
سوامی کمارانند کے ساتھ، آپ ان پہلے ہندوستانیوں میں شمار ہوئے جنہوں نے کانگریس کے 1921 میں ہوۓ احمد آباد کے قومی اجلاس میں بھارت کے لئے مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔
آپ نے برطانوی راج سے بھارت کی آزادی کے لئے جدوجہد کی اور کئی بار اس کے لئے لاٹھیاں اور گولیاں بھی کھائی اور یہاں تک  برطانوی حکومت نے کئی بار آپ کو جیل بھی بھیجا۔ 1907 میں مصر میں برطانوی پالیسیوں کے خلاف ایک مضمون شائع کرنے کے لئے آپ کو پہلی بار جیل بھیجا گیا تھا، پھر 1947 تک آپ کا جیل آنا جانا لگا رہا، آپ کئی سالوں تک جیل میں بند  بھی رہے۔ جیل میں آپ نے انگریزوں کے بےشمار مظالم سہے، آپ کو کال کوٹھری میں رکھا گیا، آپ سے چکی چلوا ئی گئی، پہننے اور اوڑھنے کے لئے پھٹے پرانے کپڑے اور کمبل دیے گئے، انتہائی خراب کھانا دیا گیا اور یہاں تک بدسلوکی بھی کی گئی۔
آپ کی گنتی ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں میں کی جاتی ہے 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد جوش ملیح آبادی اور ناصر کاظمی اور بہت سے دوسرے مسلم رہنماؤں اور اردو شاعروں کے برعکس آپ پاکستان جانے کی بجائے ہندوستان میں ہی رہنا پسند کیا اور مختلف پلیٹ فار موں پر ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ تحریکِ آزادی میں آپ کی شرکت کو تسلیم کرنے کے لیے آپ کو ہندوستانی آئین کا مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی کا ممبر بنایا گیا، لیکن دیگر ارکان کے برعکس، آپ نے اس ڈرافٹ پر دستخط نہیں کئے۔ آپ کا انتقال 13 مئی 1951 کو اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں 76 سال کی عمر میں ہوا۔
          کام:
          مولانا حسرت موہانی ایک عظیم شاعر تھے، جن کے اشعار اپنی ایک مختلف پہچان رکھتے ہیں۔ آپ نے بہت سی مشہور غزلیں لکھی ہیں، آپ کے پسندیدہ موضوعات محبت اور فلسفہ تھے۔ آپ کو غزلوں کا بادشاہ مانا جاتا ہے اسی لئے آپ کو 'رئیسولمتغزلیں' کا لقب دیا گیا ہے۔ آپ کی غزل 'چپ کے چپ کے رات دن آنسو بہانہ یاد ہے' بہت مشہور ہوئی جسے غلام علی اور غزل کنگ جگجیت سنگھ نے اپنی آواز دی ہے۔ آپ کی عشقیہ شاعری سب سے اہم اور سب سے الگ ہے۔ آپ نے جس طرح سے حسن اور عشق کی محبتوں کو شاعری میں ڈھالا ہے وہ روایتی طریقے سے بالکل الگ ہے۔ آپ خوش گوار محبت کے ترجمان شاعر تھے۔ آپ کی شاعری پڑھنے والے کو اندر تک گد گدا دیتی ہے۔ آپ کی شاعری محبت کے لطف سے سروبار ہے۔
آپ نے ہی 1921 میں  'انقلاب زنداباد' کا نعرہ لکھا تھا۔ اس نعرے نے ہر ہندوستانی کے خون میں اُبال پیدا کر دیا اور پورا ملک اپنی آزاردی کے لیۓ ایک آواز میں 'انقلاب زنداباد' بول اٹھا تھا۔
'اردو معلی' آپ کا پہلا رسالہ تھا جس نے ملک کی آزادی کے حصول کی کوششوں کو ایک نئی سمت دی اور اس میں نئی ​​جان ڈال دی۔
          ان کی کچھ کتابیں ہیں:
(1) کلیاتِ حسرت موہانی - یہ حسرت موہانی کی پسندیدہ شاعری کا ایک مجموعہ ہے جو بہت مشہور ہے۔
(2) شریفِ کلامِ غالب- یہ غالب کی شاعری کی تشریح ہے جو حسرت موہانی نے بہت محنت سے تیار کی ہے۔
(3) نکتے سخن - اس میں شعر و شاعری کے کچھ اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
(4) مشاہداتِ زندان - یہ آپ کی آپ بیتی ہے جسمیں جیل میں آپ کے ذریعے اٹھائی گئی بیشمار تکلیفوں کا ذکر ہے۔
 آپ کرشن بھگوان کا بہت احترام کرتے تھے اور ان کے لیۓ شدید محبت کا اظہار کرنے والے چھند بھی لکھے ہیں۔ اور اکثر کرشن جنم آشٹمی کا جشن منانے کے لئے متھرا بھی جاتے تھے۔
          اہم غزلیں:
☆ یوں تو عاشق ترا زمانہ...
☆ گھٹے گا تیرے کوچے میں...
☆ بیکلی سے مجھے راحت...
☆ ہم نے کس دن ترے کوچے...
☆ نگاہ یار جسے آشنائے راز...(غزل پڑھیں)
☆ اس بت کے پجاری ہیں...
☆ اپنا سا شوق اوروں میں...
☆ جو وہ نظر بسر لطف عام...
☆ وصل کی بنتی ہیں ان باتوں...
☆ نہ صورت کہیں شادمانی...
☆ کیسے چھپاؤں راز غم...
☆ کیا کام انہیں پرسش ارباب...
☆ سیہ کار تھے باصفا ہو گئے...
☆ خو سمجھ میں نہیں آتی ترے...
☆ آسان حقیقی ہے نہ کچھ سہل...
☆ ہے مشق سخن جاری...
☆ حسن بے مہر کو پروائے...
☆ تاثیر برق حسن جو ان کے...
☆ وہ چپ ہو گئے مجھ سے...
☆ قسمت شوق آزما نہ سکے...
☆ عقل سے حاصل ہوئی کیا...
☆ برکتیں سب ہیں عیاں...
☆ ہمیں وقف غم سر بسر...
☆ نہ سہی گر اُنہیں خیال...
☆ چپکے چپکے رات دن...
☆ محروم طرب ہے دل...
☆ روشن جمال یار سے...
☆ نہ سمجھے دل فریب...
☆ کیا تم کو علاج دل...
☆ بت بے‌ درد کا غم...
          ■■■


Comments

Popular posts from this blog

Khwaja Meer Dard: The Sufi Urdu Poet (in Urdu)

۔        تر دامنی  پہ شیخ  ہماری  نہ  جا  ابھی       دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو  کریں                                    خواجہ میر  درؔد        خواجہ میر درؔد     زندگی:           خواجہ میر درؔد کا نام سید خواجہ میر اور درؔد تخلص تھا باپ کا نام خواجہ محمد  ناصر تھا جو فارسی کے اچھے شاعر تھے اور عندلیؔب تخلص کرتے تھے۔ آپ کا نسب خواجہ بہاو الدین نقشبندی سے والد کی طرف سے اور حضرت غوثِ اعظم سید عبدالقادر جیلانی سے والدہ کی طرف سے ملتا ہے۔ آپ کا خاندان بخارا سے ہندوستان آیا تھا۔  خواجہ میر درد دہلی میں 1720ء میں پیدا ہوئے اور ظاہری و باطنی کمالات اور جملہ علوم اپنے والد محترم سے وراثت میں حاصل کیا۔ درویشانہ تعلیم نے روحانیت کو جلا دی اور تصوف کے رنگ میں ڈوب گئے۔ آغاز جوانی میں سپاہی پیشہ تھے۔ پھر 29 سال کی عمر میں دنیاداری سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور 39 سال کی عمر میں والد صاحب کے انتقال کے بعد سجادہ نشین ہوئے۔ درد نے شاعری اور تصوف ورثہ میں پائے۔ ذاتی تقدس، خودداری، ریاضت و عبادت کی وجہ سے امیر غریب بادشاہ فقیر سب ان کی عزت کرتے تھے۔           وہ ایک باعمل صوفی تھے ا

Khwaja Meer Dard: The Sufi Urdu Poet (in Hindi)

 - तर दामनी पे शेख हमारी न जा अभी दामन  निचोड़ दें तो फरिश्ते वज़ू करें                        - ख़्वाजा मीर 'दर्द'            ख़्वाजा मीर 'दर्द'  जीवन:           ख़्वाजा मीर 'दर्द' मशहूर उर्दू शायर थे. आप का पूरा नाम सय्यद ख़्वाजा मीर और 'दर्द' आपका तख़ल्लुस़ (क़लमी नाम) था. आप के वालिद का नाम ख़्वाजा मुह़म्मद नास़िर था, जो फ़ारसी के एक जाने माने कवि थे और जिनका तख़ल्लुस़ 'अंदलीब' था. ख़्वाजा बहाउद्दीन नक्शबंदी, वालिद साहब की तरफ से और हज़रत ग़ौसे आज़म सय्यद अब्दुल क़ादिर जिलानी, मां की त़रफ़ से आपके पूर्वजों में से थे. आपका ख़ानदान बुख़ारा से हिजरत करके हिंदुस्तान आया था. ख़्वाजा मीर 'दर्द' का जन्म 1720 ई० में दिल्ली में हुआ था और आपका शायराना और सूफ़ियाना फ़न आपको अपने पिता से विरासत में मिला था. सूफ़ी तालीम ने रूह़ानियत को जिला दी और आप तस़व्वुफ़ (आध्यामिकता) के रंग में डूब गए. शुरू जवानी में आप ने फ़ौजी का पेशा अपनाया लेकिन फिर आप का मन दुनियादारी से उचट गया और 29 साल की उम्र में दुनिया के झमेलों से किनारा कशी अख

Bashir Badr: The Urdu Shayar (in Hindi)

- बड़े लोगों से मिलने में हमेशा फासला रखना, जहाँ दरया समंदर से मिला दरया नहीं रहता.                                       —बशीर बद्र बशीर ब द्र  ज़िन्दगी:       उर्दू के महान शायर डॉक्टर बशीर  बद्र का जन्म 15 फरवरी 1935 ई०  को  फैजाबाद में हुआ था, जो इस वक़्त भारत में उत्तर प्रदेश के ज़िला अयोध्या का एक शहर है. आप की तालीम अलीगढ़ मुस्लिम यूनिवर्सिटी से हुई थी. आप की बीवी राहत बद्र हैं और आपके तीन बेटे नुसरत बद्र, मासूम बद्र, तैयब बद्र और एक बेटी सबा बद्र हैं. अपनी तालीम के दौरान आप अलीगढ़ यूनिवर्सिटी के इलाक़े में रहते थे. बाद में आप  मेरठ में भी कुछ वक़्त रहे हैं जब दंगों में आपका घर जल गया था. इसके बाद कुछ वक़्त दिल्ली में रहे और फिर भोपाल में आप मुस्तकिल तौर पर बस गए.  मौजूदा वक़्त में आप दिमाग़ की बीमारी डिमेंशिया से गुज़र रहे हैं और अपने शायरी का जीवन की आप को याद नहीं है. काम:       भारत में पॉप कल्चर के सबसे लोकप्रिय कवि यदि कोई हैं, तो डॉ0 बशीर बद्र है. विविध भारती रेडियो के मशहूर प्रोग्राम ‘उजाले अपनी यादों के’ का टाइटल आप ही के एक मशहूर शेर से लि